اسلام آباد ۔۔
اسلام آباد میں متاثرین الائنس کے زیرِ اہتمام ایک اہم، تاریخی اور پرزور احتجاجی جلسہ منعقد ہوا۔ یہ احتجاج اُس وقت کیا گیا جب وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف جناح میڈیکل کمپلیکس کے افتتاح کے لیے اسلام آباد تشریف لانے والے تھے۔ اس موقع پر مالکانِ اسلام آباد نے سی ڈی اے کے ظالمانہ، غیر منصفانہ اور بزدلانہ طرزِ عمل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دوٹوک مؤقف اختیار کیا کہ ہم کسی صورت اپنی جدی پشتی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ، ایس آر او یا نام نہاد گوگل 2008 سروے کے تحت دینے کو تیار نہیں ہیں، اور نہ ہی اپنے بچوں کے سروں سے چھت چھننے کی اجازت دیں گے۔

یہ عظیم الشان اور پُرامن احتجاجی مظاہرہ سیکٹر H-16 کی میزبانی میں منعقد ہوا، جس میں اسلام آباد کے مختلف متاثرہ سیکٹرز C-13، C-16، F-13، D-13، E-13، E-12 اور H-16 کے ہزاروں مالکان نے بھرپور شرکت کی۔ احتجاج میں مالکان، سیاسی و سماجی شخصیات اور متاثرین الائنس کے نمائندگان نے سی ڈی اے کی کرپٹ، جانبدارانہ اور ناانصافی پر مبنی پالیسیوں کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
شرکاء نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ اسلام آباد کے تمام متاثرہ مالکان یک جان، یک زبان اور ایک مٹھی کی مانند ہیں، اور دہائیوں سے تمام سیکٹرز کے ساتھ منظم انداز میں ناانصافیاں کی جا رہی ہیں۔ مالکان نے واضح کیا کہ اب مزید خاموش تماشائی نہیں بنیں گے اور کسی بھی صورت اپنی زمینیں اور اپنے بچوں کے بنیادی حقوق سی ڈی اے جیسے ناکام، نااہل اور کرپٹ ادارے کے حوالے نہیں کریں گے۔
اجلاس میں اس امر کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی کہ چیئرمین سی ڈی اے وزیراعظم پاکستان کو گمراہ کن بریفنگ دے کر مالکان کے جائز اور قانونی حقوق غصب کروا رہا ہے۔ متاثرین نے اعلان کیا کہ یہ ظلم کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ ہماری ملکیتی زمینیں ہیں؛ یہ زمینیں ہماری قبریں تو بن سکتی ہیں مگر اپنے بچوں کے حقوق لیے بغیر ہم ہرگز اپنی جائیدادیں نہیں چھوڑیں گے۔
متاثرین الائنس کے نمائندگان نے گوگل 2008 اور سپارکو سروے کی بنیاد پر بنائے گئے ایوارڈز کو کھلی ناانصافی، بدترین استحصال اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی قرار دیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ گزشتہ کئی برسوں سے اصل مالکان معاوضے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، جبکہ حقیقی اور جدی مالکان کو ایوارڈز سے باہر رکھ کر پیرا شوٹرز اور مفاد پرست عناصر کو نوازا جا رہا ہے۔

شرکاء کا متفقہ مؤقف تھا کہ موجودہ ایس آر او کے تحت جاری ایوارڈز زمینی حقائق، ملکیتی ریکارڈ اور متاثرین کے جائز مطالبات کے سراسر منافی ہیں، جس کے باعث متاثرین کو ناقابلِ تلافی مالی اور قانونی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ احتجاج میں غیر شفاف طریقۂ کار اور جانبدارانہ فیصلوں کی بھرپور مذمت کی گئی۔
احتجاج کے اختتام پر متاثرین الائنس کے نمائندگان نعیم خان، اکسیر مغل، نواز مغل، ملک حفیظ الرحمن ٹیپو، ملک ساجد، کاشف قریشی، ملک جمشید، آغا محمد علی، ملک غلام حسین، بشارت خان اعوان، جمشید مغل، عزیر خان، ملک یاسر، ملک ظہیر، عدنان شاہ، ناصر شاہ، راجہ بابر، ملک غلام دستگیر، علی اقدس شاہ، ممبر ذوالفقار علی اور ملک افضل نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرتے ہوئے درج ذیل مطالبات پیش کیے:
سی ڈی اے فوری طور پر سیکٹر H، C، E، F اور D کے متاثرہ مالکان سے بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کرے۔سیکٹر H-16 اور C-16 کے لیے ایس آر او یا گوگل 2008 کی بنیاد پر کیے گئے موجودہ BUP ایوارڈز کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور 2025 کی آبادی اور زمینی حقائق کے مطابق نیا، شفاف اور منصفانہ ایوارڈ جاری کیا جائے۔سیکٹر H-16 سمیت تمام متاثرین کو ان کا جائز، قانونی اور مکمل معاوضہ بلا تاخیر فراہم کیا جائے۔
متاثرین الائنس نے واضح اور دوٹوک اعلان کیا کہ اگر سی ڈی اے اور متعلقہ حکام نے ایک ہفتے کے اندر اندر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے تو مالکانِ اسلام آباد اپنے بیوی بچوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں سی ڈی اے آفس کے سامنے بھرپور عوامی طاقت اور آہنی حق کا مظاہرہ کریں گے۔یہاں تا دمِ مرگ دھرنا دیا جائے گا، اور ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ کے سامنے بھی دھرنا دیا جائے گا، جب تک ہمارے جائز اور قانونی حقوق نہیں دیے جاتے۔
متاثرین الائنس نے خبردار کیا کہ اس احتجاجی تحریک کو مزید وسعت دی جائے گی، اور کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کی تمام تر ذمہ داری سی ڈی اے اور متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔