تحریر ۔۔۔ ثاقب علی راٹھور
کہانی کا وہ کردار جس سے کہانی زندہ ہوتی ہے بین الاقوامی دنیا میں اسکو ویڈیو جرنلسٹ اور پاکستان میں کیمرہ مین کہا جاتا ہے، کیمرہ مین کی اصطلاح یوں تو دہائیوں پرانی ہے،اس وقت شادی بیاہ اور دوسری تقریبات کے خوبصورت لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے والے کو کیمرہ مین کا نام دیا گیا، لیکن بات سب شادی بیاہ کی تقریبات سے نکل کر خبروں تک پہنچ چکی تھی ۔
جوں جوں دنیا ترقی کرتی گئی حالات حاضرہ پر مبنی رپورٹس اخبارات میں شائع ہونے لگی، تصاویر کے بغیر اخبارات میں خبر یا انٹرویو میں اتنی دلچسپی نہیں لی جاتی تھی، مختلف پبلشرز نے ہاتھ سے تصاویر بنانے والے مصوروں کو رکھا، لیکن ان تصاویر میں وہ جاذبیت نہیں ہوتی تھی،لیکن کیمرہ آنے کے بعد تحریروں کے ساتھ اچھی تصویریں کو بھی چھاپنا شروع کیا گیا اس کام کو انجام دینے کے لیے ہر پبلشر نے کیمرہ مین رکھنا شروع کر دیے جو خبر یا انٹرویو کے متعلق تصاویر بنا کر لاتا تھا انکو اخبارات ، کتابوں اور رسالوں میں شائع کیا جانے لگا،
وقت بدل رہا تھا۔ دنیا پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا پر جا رہی تھی ، اب ویڈیوز کی ضرورت پڑنے لگی تو اداروں نے ویڈیو بنانے والوں کو نوکری پر رکھنا شروع کر دیا، اب ہر ایونٹ کی کوریج کرنے کے لیے ایک شخص بڑا کیمرہ اور ٹرائی پوڈ اٹھائے نظر آنا شروع ہو گئے، لیکن یہاں کہانی دوسرا رخ لیتی ہے کیمرہ مین یا ویڈیو جرنلسٹ کے لیے تعلیم کا ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا بس اس کے پاس کیمرہ چلانے کا تجربہ ہونا ضروری تھا۔
دور بدل رہا تھا نوجوانوں نے ابلاغ عامہ میں ڈگریاں حاصل کرنا شروع کر دیں، اب میڈیا سے کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے پاس بہت سارے شعبے میسر ہونے لگے۔ دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ کیمرہ مین کے لیے بھی ابلاغ عامہ کی ڈگری حاصل کرنا ضروری ہو گیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکو ویڈیو جرنلسٹ کا نام دیا گیا۔ لیکن پاکستان میں متعلقہ شعبے میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی اسکو کیمرہ مین ہی کہا جاتا ہے، جبکہ اس کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو ویڈیو جرنلسٹ کی ہی بدولت نشریاتی ادارے ناظرین کو اپنی سکرین کی طرف مائل کرتے ہیں۔
میڈیا کی فیلڈ میں ویڈیو جرنلسٹ کو وہ عزت و تکریم نا ملی جو ایک رپورٹر کو ملتی ہے، لیکن آج کے دور میں ویڈیو جرنلسٹ اپنے تجربے سے ایسی ایسی فوٹیج عوام تک پہنچاتا ہے جو تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے،جنگ ہو یا امن، مظاہرہ ہو یا سیاسی جلسہ ہر جگہ ویڈیو جرنلسٹ بہت سارے منفرد لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے دکھاتا ہے،
اگر ایک جائزہ لیا جائے تو اس وقت خبروں میں جان ڈالنے کا کام ویڈیو جرنلسٹ ہی انجام دے رہا ہے۔ ویڈیو جرنلسٹ کو فیلڈ میں اکثر لڑتے دیکھا ہو گا ، اسکے فریم میں آنے والے شخص کے ساتھ بحث کرتے سنا ہو گا،
تحقیق کرنے پر پتا چلتا ہے کہ ادارے کو ہر لمحہ کی فوٹیج چاہیے ہوتی ہے جس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے ، سردی گرمی،دھوپ چھاؤں ، گولیوں کی سنسناہٹ ہو یا آنسو گیس کی بارش، مظاہرین کی طرف سے پتھراؤ کیا جا رہا ہو یا پھر سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی طرف سے ہتک آمیز رویہ، ایک ویڈیو جرنلسٹ سب کچھ برداشت کرتا ہے کیوں کہ اس نے وہ لمحات اپنے ادارے کو دینے ہوتے ہیں ۔ تاریک پہلو یہ ہے کہ آج کے اس دور میں بھی ویڈیو جرنلسٹ جو تنخواہ رپورٹرز یا دوسرے سٹاف سے کہیں کم ملتی ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے کام کو پوری ایمانداری سے سر انجام دیتا ہے۔
مختلف اداروں میں کام کرنے والے ویڈیو جرنلسٹ جنہوں نے پاکستان میں ہونے والے بہت سارے واقعات کو کور کیا اور ناظرین تک پہنچایا جہاں انکی جان کو بھی شدید خطرہ تھا،موت سامنے نظر آ رہی تھی لیکن انہوں نے مکمل وفاداری سے فوٹیج بنائی۔ مدثر رحیم قریشی دنیا ٹی وی کے ساتھ بطور ویڈیو جرنلسٹ منسلک ہیں، انکو اس فیلڈ میں سترہ سال ہو گئے۔انکا کہنا تھا کہ ہم ویڈیو جرنلسٹ کسی بھی نشریاتی ادارے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،ہمیں موسم کی شدت، جنگی حالات اور سیاسی جلسوں کے اندر جا کر فوٹیج عوام تک پہنچانی ہوتی ہے جو ہم کرتے ہیں۔
میری آنکھوں کے سامنے لیاقت باغ جلسہ میں بینظر بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا، میں وہیں موجود تھا اور میں نے سب ریکارڈ کیا تھا۔اسی طرح لال مسجد آپریشن کے دوران پولیس اور لال مسجد انتظامیہ کے مذاکرات ہو رہے تھے،اسکے بعد پولیس حکام وہاں سے نکل کر واپس جا رہے تھے کہ ایک سائیکل سوار آیا۔ میں پولیس کے واپس جانے کی ریکارڈنگ کر رہا تھا اس اثناء میں سائیکل سوار نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا، اس وقت موت سامنے تھی لیکن مجھے وہ ریکارڈ کرنا تھا جو میں نے کیا۔
آج تک سینکڑوں سیاسی اور عالمی شخصیات کے انٹرویوز ریکارڈ کیے ہیں جن میں ہیلری کلنٹن بھی شامل ہیں۔وکلاء تحریک میں پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج میں مار بھی کھائی زخمی بھی ہوئے۔سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں اکثر دوران کوریج مار کھانی پڑتی ہے۔لیکن ایمانداری سے کام کرنا ہوتا ہے۔
2014 عمران خان دھرنے میں کارکنان کی طرف بدتمیزی کرنا معمول تھا ، کارکنان کی طرف غلیلوں سے پتھر مارے جاتے رہے۔2012 میں طاہر القادری کے کارکنان جب شاہراہ دستور پر پہنچے،اس وقت تمام میڈیا آگے جا چکا تھا میں پیچھے موجود تھا اسی دوران پولیس کی جانب سے کارکنان لاٹھی چارج آنسو گیس کا استعمال اور ہوائی فائرنگ کی گئی ، میں وہ فوٹیج بتانا رہا وہ فوٹیج صرف میں نے بنائی تھی۔میرے علاؤہ کسی بھی نشریاتی ادارے نے وہ فوٹیج نہیں بنائی تھی۔ہم جتنا کام کرتے ہیں اتنے پیسے نہیں ملتے۔ہمارا ہمیشہ استحصال کیا جاتا رہا ہے حالانکہ ویڈیو جرنلسٹ کی بدولت رپورٹ میں جان آتی ہے۔ رپورٹرز تو کسی جگہ سے بیٹھ کر رپورٹ کر دیتے ہیں آج کل واٹس ایپ کا دور ہے وہیں سے پڑھ کر خبر دے دیتے ہیں جبکہ ویڈیو جرنلسٹ کو میدان میں اترنا پڑتا ہے۔
ویڈیو جرنلسٹ عمر کا کہنا تھا کہ ہمیں چیف جسٹس افتخار چودھری کی وکلاء بحالی تحریک میں پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔مذہبی جماعتوں کے کارکنان کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جانا معمول کی بات ہے۔ آپ ویڈیو جرنلسٹ کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ہمارے کیمرے کی انشورنس ہوتی ہے جبکہ اسکو چلانے والے ویڈیو جرنلسٹ کی کوئی اہمیت نہیں اور نا ہی انشورنس ہوتی ہے۔رپورٹر تو گھر سے بیٹھ کر بھی رپورٹ کر سکتا ہے، جبکہ ہمیں فیلڈ میں جانا پڑتا ہے۔
دفتر میں بیٹھے نان ٹیکنیکل سٹاف ہم سے فوٹیج کے بارے غصہ کرتے ہیں کہ وہ فوٹیج کیوں نہیں لی اس اینگل سے کیوں نہیں لی لیکن وہ ہمیں نہیں پوچھتے کہ کتنی مشکل سے فوٹیج بناتے ہیں، انکو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رائٹر ثاقب راٹھور متحرک اور بے باک صحافی ہیں ۔ چیزوں کو منفرد انداز میں دیکھتے ہیں اور ہر کہانی میں نئی اسٹوری تخلیق کرنے والے قلم کار ہیں ۔
[…] کیمرا مین ۔۔ کہانی میں رنگ بھرنے والا کردار […]