تحریر۔۔۔محمد شہباز

ابھی حال ہی میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں پہلگام واقعہ کا سرے سے ذکر نہ ہونے کے باعث مودی اس دھچکے سے سنبھل نہیں پارہے تھے کہ بھارت کو عالمی سطح پر ایک اور سبکی بلکہ یہ کہا جائے رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اگر چہ بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے بغیر ہی چلتے بنے،لیکن اب عالمی سطح پر بھارت کے خلاف جو فیصلہ آیا ہے ،وہ بھارتی حکمرانوں کے دستخط کا محتاج نہیں ہے ۔میری مراد دی ہیگ میں قائم مستقل عدالت برائے انصاف کے تحت ثالثی عدالت کے فیصلے کا۔
بھارت کی جانب سے مغربی دریائوں چناب ،جہلم اور سندھ پر غیر قانونی طور پر آبی ذخائر کی تعمیر کے خلاف پاکستان نے 2016 میں ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا، بھارت نے اس کیلئے ثالثی عدالت سے غیر جانبدار ماہر کی تعیناتی کی استدعا کی اور اس پر عدالت میں کارروائی پہلے سے جاری ہے۔بھارت نے ثالثی عدالت سے معاہدے کی نام نہاد یکطرفہ معطلی کے بعد ثالثی عدالت کی کاروائی معطل کرنے کی استدعا کی تھی جسے اب ثالثی عدالت نے مسترد کیا ہے۔ثالثی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے ثالثی عدالت کا کردار نمایاں ہے اور معاہدے کی معطلی کے بھارتی اقدام سے عدالت کی فیصلہ سازی کی حیثیت بالکل متاثر نہیں ہوتی۔فیصلے کے متن کے مطابق کسی ایک فریق کے معاہدہ معطلی کے یکطرفہ فیصلے سے عدالت اپنی کاروائی نہیں روکے گی اور سندھ طاس معاہدے پر فیصلہ سازی جاری رکھے گی۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت نے سندھ طاس معاہدے کا بغور جائزہ لیکر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں کہیں بھی یکطرفہ طور پر اسے معطل کرنے کی شق شامل یا موجود نہیں ہے، سندھ طاس معاہدے کا اطلاق پاکستان اور بھارت کی جانب سے اسے معطل کرنے کے متفقہ فیصلے کے بغیر جاری رہے گا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں کوئی بھی فریق یعنی بھارت یکطرفہ طور پر کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے ثالثی کاروائی کو روک نہیں سکتا، مسائل کے حل میں ثالث کے کردار کو روکنے کی کوشش سندھ طاس معاہدے میں موجود ثالث کے ذریعے تنازعات کے حل کی لازم شق کی خلاف ورزی ہے۔فیصلے کے متن کے مطابق ان تمام حقائق کی روشنی میں عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ طور پر ثالثی کاروائی روکنے کا کوئی حق حاصل نہیں، سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے تنازعات کے حل کیلئے ثالثی عدالت اپنا ذمہ دارانہ، منصفانہ اور موثر کردار ادا کرتی رہے گی۔حکومت پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے مستقل عدالت برائے انصاف کے تحت ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں ثالثی عدالت نے پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کرنے اور ثالثی عدالت کے کردار کو محدود کرنے کا اقدام درست نہیں۔حکومت پاکستان ثالثی عدالت کے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے فیصلے میں پاکستان کے موقف کی تائید اور بھارت کے یکطرفہ طور پر اسے معطل کرنے کے اقدام کو معاہدے کی رو سے غیر قانونی قرار دینا خوش آئند سمجھتی ہے۔وہیں وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کا واضح موقف بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان، جموں و کشمیر، پانی، تجارت اور دہشت گردی سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر بھارت کیساتھ بامعنی بات چیت کیلئے تیار ہے۔
یاد رہے کہ مودی نے رواں برس 22اپریل کو بائی سرن پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکتوں کے بعد سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے ،جس سے ریاست پاکستان نے 24کروڑ عوام کے خلاف اعلان جنگ قرار دیکر کہا کہ پاکستانی عوام کے تمام حقوق کا ہر حال میں تحفظ کیا جائے گا اور یہ کہ پاکستان کی سونا اگلتی زمینوں کو بنجر بنانے کے خواب دیکھنے والوں کے اقدامات کیساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔اس معاملے میں سب سے زیادہ آواز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بلند کررہے ہیں ۔ان کا یہ جملہ کہ سندھو میں یا پانی بہے گا یا خون ،عالمی سطح پر بہت شہرت حاصل کرچکا ہے ۔بلاول بھٹو جو بیرون ممالک پاکستان کے سفارتی مشن کے سربراہ تھے،نے جگہ جگہ اس بات کا ذکر کرنا مناسب سمجھا کہ مودی پاکستان اور عوام پاکستان کو بھوکا پیاسا مارنا چاہتا ہے ،البتہ پاکستان مودی کی جانب سے پانی روکنے کے کسی بھی اقدام کو طاقت کی بنیاد پر روکے گا اور اگر اس سلسلے میں جنگ بھی کرنا پڑی تو پاکستان دریغ نہیں کرے گا۔
بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کیساتھ پانی پر ایٹمی جنگ بھی ہوسکتی ہے۔یعنی ریاست پاکستان اس معاملے میں کسی مخمصے یا اگر مگر کی پالیسی کا شکار نہیں ہے۔پاکستان واضح کرچکا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے حصے میں آنے والے تین مغربی دریائوں ،چناب،جہلم اور سندھ کا پانی روکنے کی کوشش کی تو پھر بھارت 06 سے دس مئی تک اپنے ساتھ رونما ہونے والے تمام واقعات بھول جائے گا،دوسرا دنیا بھی دیکھے گی،کہ اپنے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، جس کے تحت تین مشرقی دریائوں راوی، بیاس اور ستلج پر بھارت اور تین مغربی دریائوں سندھ، جہلم اورچناب پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ مگر مودی حکومت اس دیرینہ اور تسلیم شدہ معاہدے کو اب ایک "رکاوٹ” سمجھتی ہے، اور اسے پسِ پشت ڈال کر خطے میں آبی عدم توازن پیدا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔تلبل نیویگیشن پروجیکٹ، جسے ولر بیراج بھی کہا جاتا ہے، اسی خطرناک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کی تجدید کا مقصد سردیوں کے موسم میں دریائے جہلم کے بہاو کو کنٹرول کرنا ہے، جو براہ راست پاکستان کے پانی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
بھارت کی نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن (NHPC) اس وقت اس منصوبے کی تفصیلی رپورٹ تیار کر رہی ہے، جس کے مکمل ہوتے ہی فیصلہ کن اقدامات متوقع ہیں۔اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ بھارتی حکام اب ایسے منصوبے تجویز کر رہے ہیں جن کے ذریعے دریائے چناب کو نئی نہروں سے بھارتی ریاستوں پنجاب ا ور ہریانہ منتقل کیا جائے۔جس کا اظہار بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے حال ہی میں کیا ہے۔ گویا بھارت اب مغربی دریائوں کے پانی پر "زیادہ سے زیادہ” قبضے کا خواہاں ہے، جس سے پاکستان کی زراعت، معیشت اور ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔پاکستان پہلے ہی کشن گنگا ہائیڈرو پاور منصوبے سے متاثر ہو چکا ہے، جہاں دریائے نیلم کا قدرتی بہاو موڑ کر جہلم میں ڈالا گیا۔ اب رتلے منصوبے، جس کی صلاحیت 850 میگاواٹ ہے، چناب کے پانی کو قابو میں کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔بی جے پی حکومت کی جانب سے ورلڈ بینک کے نامزد نیوٹرل ایکسپرٹ سے کارروائی روکنے کی درخواست اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ بھارت انصاف اور ثالثی سے نہیں بلکہ طاقت اور دھونس سے مسائل حل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔جس کی اس سے لت پڑچکی ہے۔خاصکر مسئلہ کشمیر پر بھارتی حکمران ہمیشہ ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔کشمیری عوام کو بندوق کے بل پر غلام بناکر رکھنا مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ڈیڑھ درجن سے زائد قراردادوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اور جب بھی اہل کشمیر ان قراردادوں کی روشنی میں اپنے حق خودارادیت کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جاتے ہیں۔
اب مودی اور اس کا بھارت 24کروڑ آبادی پر مشتمل پاکستان کو بھوکا پیاسا مارنے کے درپے ہے۔پانی کی اہمیت اور افادیت سے کوئی ذی حس انکار نہیں کرسکتا۔ اس کرہ ارض پر موجود اربوں انسانوں کیلئے پانی کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔یہ قدرت کی اپنے بندوں کیلئے عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔البتہ انسانیت سے عاری مودی اور اس کے حواری خدائی نظام کے برعکس اقدامات کرنے کی ضد پر قائم ہیں،جس کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کبھی برآمدنہیں ہوا۔چونکہ بھارت پر جو ٹولہ اس وقت مسلط ہے وہ انسانیت پر نہیں بلکہ فسطائیت پر یقین رکھتا ہے اور اسی لیے اس ٹولے سے انسانیت کے خلاف اقدامات کرنے سے نہ تو تعجب اور حیرت ہے اور نہ ہی کوئی بعید۔ایسے میں عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کریں۔ اگر بھارتی حکمرانوں کو یوں ہی کھلی چھوٹ ملتی رہی، تو یہ خطہ جو پہلے ہی ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے،مکمل طور پر تباہی سے دوچار ہو گا، یقینا آبی جنگ کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے۔
بلاشبہ پاکستان سفارتی راستے کے علاوہ قانونی، ماحولیاتی اور انسانی حقوق کے اداروں کو بھی متحرک کرے گا۔کیونکہ یہ صرف پانی کا نہیں، بلکہ پاکستان کے وجود اور بقا کا مسئلہ ہے اور قومیں بقا پر سمجھوتہ نہیں کرتیں۔کیونکہ دس مئی کے بعد ایک نیا اور ابھرتا ہوا پاکستان معرض وجود میں آچکا ہے ،جس کا ڈنکا پوری دنیا میں بج چکا ہے۔یہ دس مئی کی ہی دین ہے کہ بھارت کا بیانیہ پوری طرح پٹ چکا ہے ۔اس کے مقابلے میں پاکستان کے بیانیے کو پوری دنیا میں پذیرائی مل چکی ہے ۔جس کا ثبوت بھارتی وفود کی بے توقیری اور اب شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبر ممالک کا بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کے علاوہ سندھ طاس معاہدے سے متعلق ثالثی عدالت کا بھارت کے خلاف فیصلہ ہے۔