تحریر: جلال الدین مغل

ایک زمانے میں پیپلز پارٹی ایک تحریک کا نام تھا۔ یہ محض ایک جماعت نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک عوامی لہر، ایک مزاحمت کی علامت، اور ایک عزم کا استعارہ ہوا کرتی تھی۔ وہ پارٹی جو ایوبی آمریت کے مقابل سینہ سپر ہوئی، ضیائی تاریکیوں میں جمہوریت چراغ جلائے رکھے، اور مشرفی ہتھکنڈوں کے سامنے سر خم کرنے سے انکار کیا! مگر آج خود کو نئے رنگ میں ڈھالنے کے چکر میں یہ جماعت رفتہ رفتہ اپنا چہرہ مسخ کر رہی ہے اور اپنی شناخت پر اپنے ہاتھوں مٹی ڈال رہی ہے۔
سندھ کے بعد اگر کسی خطے میں پیپلز پارٹی کو غیر مشروط، جذباتی اور نظریاتی حمایت حاصل رہی ہے، تو وہ آزاد جموں و کشمیر تھا۔ یہاں بھٹو کا نعرہ صرف "روٹی، کپڑا، مکان” کا وعدہ نہ تھا، بلکہ یہ عوام کے حقِ خودارادیت، جمہوری اداروں کی سربلندی، اور سماجی انصاف کا استعارہ بھی تھا۔ مگر اب یہ نعرہ ماضی کی گرد میں دفن ہو رہا ہے اور اس نعرے کے پرچارک اپنے ہاتھوں مٹی کی مٹھی نظریے کی قبر پر ڈال رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کے مزید 2 اراکین اسمبلی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے
جس جماعت کی پہچان اور اٹھان جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے کی بنیاد پر تھی اس نے اب جو رجحان اپنا ہے وہ معاشرے کے لیے ہو نہ ہو اسے جماعت کے اپنے وجود کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ الیکٹیبلز کا سہارا لینا، سرمایہ داروں کو کندھوں پر بٹھانا، اور نظریاتی کارکنوں کو کونے میں دھکیل دینا، یہ وہی راستہ ہے جس پر چل کر نون لیگ آج بے وزن و بے وقعت ہو چکی ہے اور پی ٹی آئی، اقتدار سے محرومی کے بعد، فکری انتشار کا شکار ہے۔
"سیاسی مسافر” جب پارٹیوں میں شامل کیے جاتے ہیں، تو بظاہر یہ ایک بڑی سیاسی "چال” دکھائی دیتی ہے، لیکن درحقیقت یہ اپنی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا عمل ہے۔ ان سیاسی موسمی پرندوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، کوئی وابستگی نہیں، سو جب ہوا کا رخ بدلے، پہلی اڑان یہی پرندے بھرتے ہیں۔
چودھری یاسین کو عارضی طور پر وزیراعظم بنانے کے لیے تنویر الیاس جیسے افراد کو کشتی میں بٹھانا، وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے، مگر جس کشتی پر پہلے ہی گنجائش سے زیادہ بوجھ ہو اس پر مزید وزن ڈالنے سےنہ صرف چھت گرے گی، بلکہ پوری کشتی الٹنے کا خطرہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے قائدین کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہر لوٹا، ہر سرمایہ دار، ہر الیکٹیبل — قیمت مانگتا ہے۔ یہ قیمت نظریہ، کارکن، اور تنظیمی ڈھانچے کی شکل میں ادا ہوتی ہے۔ اور جب پارٹی کا فکری سرمایہ ختم ہو جائے، تو اسے نہ صرف ووٹ نہیں ملتے، بلکہ اس پر عوامی اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا اصل سرمایہ اس کے وہ کارکن ہیں جنہوں نے مشکل وقت میں جیلیں کاٹیں، جائیدادیں بیچ کر جلسے کیے، اور برسوں تنخواہ کے بغیر تنظیمیں چلائیں۔ ان کارکنوں کی قیمت لگانا، انہیں کسی سرمایہ کار کے ہاتھوں فروخت کرنا اور پھر جمہوریت کا نعرہ لگانا ان قبروں کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی جن میں آمریت کا جبر سینے والے کارکن دفن ہیں۔ آنے والا وقت بہت ظالم ہے۔ اس کے لیے پیش بندی نہ ہونے کی صورت میں جماعت کا شیرازہ سنبھالنا مشکل ہو سکتا ہے۔
جب سیاست کا توازن بگڑ جائے، جب جماعتیں سیاسی مسافروں کا ڈیپو بن جائیں، تو پھر نہ تنظیمی ڈھانچہ بچتا ہے اور نہ "نظریاتی قلعے”۔ صرف بے چہرہ لوگ رہ جاتے ہیں، جو ہر آنے والے سیلاب میں بہنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔