ستمبر 14, 2025

Blog

سردار علی شاہنواز خان

تحریر ، سردار علی شاہنواز خان

ایگزیکٹو ڈائریکٹر، کشمیری اسکینڈینیوین کونسل۔۔۔۔ اوسلو، ناروے

ریاست جموں و کشمیر کی منقسم اکائیوں کے عالمی تنازعے پر ہمیشہ سے یہ حقیقت تسلیم کی گئی ہے کہ پاکستان کو بھارت پر سیاسی و اخلاقی برتری حاصل رہی ہے، کیونکہ پاکستان نے اپنے زیرِ انتظام حصے کو ایک الگ شناخت دی۔ اسمبلی، آئین، عدالتیں، جھنڈا اور دیگر ادارے قائم رکھے، جب کہ بھارت نے اپنے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر سے یہ سب چھین لیا، شناخت، اظہارِ رائے، سیاسی آزادی اور بنیادی حقوق پر قدغن لگا دی۔ اس کے برعکس آزادکشمیر میں عوام اپنی رائے دے رہے ہیں، احتجاج کر رہے ہیں اور مزاحمت کی روایت زندہ ہے۔ اب یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ 29 ستمبر کی غیر معینہ مدت تک شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال ایک فوری یا جذباتی اعلان نہیں بلکہ ایک منظم اور مسلسل عمل کا نتیجہ ہے۔

پانچ فروری 2025ء کے احتجاج کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے چھ ماہ کا وقت دیا تاکہ حکومت ان مطالبات پر عمل کرے جنہیں اس نے اصولی طور پر تسلیم کیا تھا، مگر چھ ماہ بعد بھی حکومت نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ ٹوکن احتجاجوں اور بارہا یاد دہانی کے باوجود مذاکرات کا دروازہ ہی بند رکھا۔ قانونی اور اخلاقی اصول یہ کہتے ہیں کہ جب عوامی نمائندے عوام کی فلاح کے تقاضے پورے نہ کر سکیں تو عوام کو پرامن احتجاج اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہی اصول یورپ اور ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں تسلیم شدہ ہے۔ ناروے، سویڈن، فرانس یا جرمنی میں اگر حکومت عوامی فلاح کے کسی شعبے میں ناکام ہو تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ان احتجاجوں کو نہ تو ریاست دشمنی کہا جاتا ہے اور نہ ملک دشمنی، بلکہ انہیں جمہوریت کی اصل روح سمجھا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں آزادکشمیر کے عوام کا یہ سوال بالکل جائز ہے کہ کیا ان کا پرامن احتجاج اور اپنے حقوق کا مطالبہ ریاست دشمنی ہے یا ریاست کے لیے خیر خواہی؟

عوامی ایکشن کمیٹی نے پچھلے احتجاجوں میں یہ ثابت کر دیا کہ منظم عوامی دباؤ سے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جب کوہالہ اور آزاد پتن جیسے داخلی راستے بند ہوئے تو نہ صرف آزادکشمیر بلکہ وفاق میں بیٹھے سیاسی رہنماؤں کو ہم نے یہ یہاں ناروے سے ہو کر بھی حساسیت کا احساس دلایا ، صدر پیپلز پارٹی آزادکشمیر ، مسلم لیگ کے اکابرین اور فیصلہ ساز اداروں سے منسلک ذمہ داران کو بھی مشورہ دیا کہ عوامی مطالبات کو نظر انداز کرنا خطرناک ہے۔ عوامی مزاحمت اور پوری دنیا میں بیٹھے ہم جیسے کئی افراد کی کاوشوں کے نتیجے میں وزیر اعظم پاکستان کو مداخلت کرنا پڑی اور بجلی اور آٹے کی سبسڈی بحال ہوئی، 23 ارب روپے جاری کیے گئے۔

 یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ پرامن جدوجہد سے نتائج ملتے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا 38 نکاتی چارٹر محض احتجاجی ایجنڈا نہیں بلکہ ایک سماجی معاہدہ ہے۔ ان نکات میں گندم اور بجلی پر سبسڈی، کرپشن اور سفارش کا خاتمہ، صاف پانی، صحت و تعلیم کی سہولیات، صحافیوں اور وکلاء کے حقوق کا تحفظ، بلدیاتی اداروں کو اختیارات، عدالتی نظام میں اصلاحات اور پولیس کو غیر سیاسی بنانا شامل ہیں۔ ان میں کون سا مطالبہ ایسا ہے جو کسی بھی جمہوری ریاست کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہو؟ یہ تمام مطالبات شہری فلاح اور قانون کی بالادستی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ آزادکشمیر کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں، خصوصاً مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ باضابطہ ڈائیلاگ کریں، ان کے جائز مطالبات کو سنیں اور انہیں اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنائیں تاکہ عوامی فلاح کے نکات محض احتجاجی ایجنڈا نہ رہیں بلکہ عملی سیاسی ترجیحات بن سکیں۔

 طاقت کے استعمال سے صرف ریاست اور عوام کے درمیان خلیج بڑھے گی اور یہی بھارت کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔ اگر پاکستان اپنے زیرِ انتظام حصے میں سہولیات دے گا، جمہوری اقدار قائم کرے گا اور عوامی مطالبات کو سنے گا تو عالمی برادری کے سامنے اس کی اخلاقی و سیاسی برتری مزید بڑھ جائے گی۔ اس کے برعکس اگر مطالبات کو ریاست دشمنی کہہ کر دبایا گیا تو یہ صرف عوام میں مایوسی اور بھارت کے بیانیے کو تقویت دے گا۔ اصل سوال پاکستان یا عوامی ایکشن کمیٹی نہیں بلکہ آزادکشمیر کی اپنی قیادت ہے۔ عوام نے انتخابات کے وقت ہمیشہ برادری اور وقتی مفادات پر ووٹ دیا، نتیجہ یہ کہ اہل اور جرات مند قیادت سامنے نہ آ سکی۔ اب وقت ہے کہ قیادت بدلے، عوام ذمہ داری سے فیصلہ کریں اور ایسی قیادت کو سامنے لائیں جو عوام اور ریاست پاکستان کے درمیان پل کا کردار ادا کرے، نفرت یا ٹکراؤ کا نہیں، کیونکہ ٹکراؤ صرف پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچائے گا اور یہی بھارت کی سب سے بڑی خواہش ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی ریاست دشمن نہیں بلکہ ریاست کو بہتر بنانے اور عوام کو ان کے حقوق دلانے کی ایک عوامی کاوش ہے۔ جمہوری اصول یہی کہتے ہیں کہ عوام اپنی طاقت کے ذریعے حکومت کو جواب دہ بنائیں۔ اگر یورپ اور ترقی یافتہ دنیا میں یہ رویہ جمہوریت کی علامت ہے تو آزادکشمیر میں اسے ریاست دشمنی کہنا انصاف کے منافی ہے۔ اصل حل مکالمہ، آئینی حقوق کی فراہمی، ایسی قیادت اور ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو عوامی منشور میں عوامی مطالبات کو شامل کر کے حقیقی نمائندگی کا حق ادا کر سکیں۔