
تحریر ۔۔۔ مقصود منتظر
کیا خدا ہے؟خالق کائنات کے وجود کے حوالے سے۔۔ ڈز گارڈ ایگزسٹ ۔۔
does god exist
کے عنوان سے گزشتہ روز بھارت میں ایک شاندار اور تاریخی مناظرہ ہوا ۔ یہ مناظرہ بھارت کے معروف شاعرو ملحد جاوید اختر اور مذہبی اسکالر مفتی شمائل ندوی کے درمیان ہوا ۔ کانسٹی ٹیوشن کلب میں دو گھنٹے کی بحث ہوئی۔ انڈیا ٹوڈے میگزین اور للن ٹاپ سے وابستہ سورب دیویدی نے مناظرے کی میزبانی کی ۔
یہ مناظرہ کیوں ہوا ۔۔اس کی ایک وجہ جاوید اختر کا یہ بیان ہے ۔
جاوید اختر نے چند روز قبل ایک بیان میں کہا ساتویں آسمان پر اللہ ہے جو دنیا میں انیائے( ناانصافی) ہوتا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کرتا ۔ یعنی انہوں نے خدا کے وجود سے انکار کیا ۔ اس پر مفتی شمائل نے اس ملحد کو 20دسمبر کو مناظرے کی دعوت دی جو بمشکل اس نے قبول کر لی۔ مناظرہ دو گھنٹے جاری رہا اور یہ تین سیشنز پرمشتمل تھا ۔ اس بحث کو کروڑوں لوگوں نے دیکھا ۔
مباحثے کے رولز پہلے سے ہی طے کیے گئے تھے جس میں ایک یہ بھی تھا کہ کسی مذہب کی دلیل اس مناظرے میں نہ دی جائے ۔ صرف عقلی دلیل اور لاجک یا منطق سے یہ ثابت کیا جائے کہ اللہ کا وجود ہے یا نہیں ۔ دونوں نے رولز کی پابندی کی اور میزبان نے بھی دونوں کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنے دی ۔

جاوید اختر نے موقف اپنایا کہ اگر خدا ہے تو دنیا میں اتنی تکلیفیں کیوں ہیں؟
اس پر مفتی شمائل ندوی نے کہا اگر یہ مصائب خدا کی عدم موجودگی کا ثبوت ہیں تو انصاف کا مطالبہ کرنا فضول ہے۔ مصائب اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان کے اندر صحیح اور غلط کا احساس موجود ہے، اور یہ خدا کی سب سے بڑی نشانی ہے۔
جاوید اخترنے یہ سوال بھی پوچھا اگر خدا کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے تو ہم اس پر کیوں یقین کریں؟
مفتی شمائل ندوی نے جواب دیتے ہوئے کہا ہر چیز جو موجود ہے اسے لیبارٹری میں دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عقل، محبت، ضمیر، انصاف، ان کا بھی کوئی ٹیسٹ ٹیوب ثبوت نہیں،
لیکن کوئی بھی ان سے انکار نہیں کرتا۔
اس دوران جاوید اختر نے کہا میں وہی مانتا ہوں جو عقل مانتی ہے۔
اس پر مفتی شمائل ندوی نے دلیل دی کہ عقل بہت قیمتی ہے،لیکن عقل خود کہتی ہے کہ وہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتی۔ عقل سب کچھ سمجھ جائے تو غرور علم کہلائے گا۔
مباحثہ کافی دلچسپ تھا لیکن خود کو دانشور کہنے والے جاوید اختر ایک تو سائنسی ٹرمنالوجی سمجھنے سے قاصر نظر آئے دوسرا وہ زیادہ تاریخ اور واقعات کا سہارا لیتے رہے ۔ انہوں نے سائنسی دلیل کو بھی نظر انداز کیا بلکہ ایک دو بار
The Contingency Argument For God’s Existence
کو بھی سادہ الفاظ میں بیان کرنے کی درخواست کی۔ یہی موقعہ تھا جب انہوں نے سائنسی دلیل کو رد کیا ۔ اور لفظ Contingency بار بار مطلب پوچھتے رہے ۔
کل ملا کر دیکھا جائے تو جاوید صاحب نے تاریخ کی کتابوں کی مدد سے اللہ کے وجود سے انکار کیا اور اپنی دلیل تاریخی علوم سے منوانے کی کوشش کی۔ انہوں نے حضرت عیسی کی ولادت کا حوالہ بھی دیا ۔جاوید صاحب کی ان دلیلوں سے ناظرین یہ ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ ان کی ہسٹری پر گہری نظر ہے ۔۔ ۔
مباحثے کے دوران جاوید اختر بضد رہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے یہ صرف فیتھ ہے اور مذہبی یقین ہے ۔ اس بات کو وہ ثابت کرنے کیلئے عقل اور تاریخ کا حوالے دیتے رہے ۔۔ لیکن بخدا جاوید صاحب تاریخ سے بھی ناواقف نکلے ۔ وہ ایسے کہ انہوں نے دنیا کی بیشتر کتابیں ضرور پڑھی ہوں گی اور ان سے حوالے بھی دیئے لیکن کاش وہ قرآن پاک کو بھی تاریخ کی کتاب سمجھ کر ہی پڑھ لیتے ہیں ۔۔ رشد و ہدایت کے مقصد سے نہ سہی ۔ کم سے کم اپنے موقف کا کوئی حوالہ قرآن سے بھی ڈھونڈ لیتے کیونکہ قرآن بھی صدیوں پرانی کتاب ہے ۔
کاش میں اس مباحثے کے ہال میں موجود ہوتا تو میں جاوید اختر سے ضرور یہ سوال پوچھتا کہ باقی کتابوں کو تو آپ غور سے پڑھ رہے ہیں لیکن قرآن کو کیوں نہیں ۔ یہ کسی مولوی کی نہیں یہ آفاقی کتاب ہے ۔ آپ اسے ہسٹری کے طور پر ہی پڑھ لیتے ۔
کاش جاوید اختر نے یہ کتاب غور پڑھ لی ہوتی تو انہیں وہ حقائق مل جاتے ہیں جن کی سائنس آج تصدیق کرتی ہے ۔ مثلا ۔ قرآن پاک میں پانی کا ذکر ۔ لوہے کا ذکر ہے ، روشنی اور فرشتوں کا زمین تک کے سفر کا ذکر ہے ۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن کو قرآن چودہ سو سال پر بیان کیا اور آج سائنس ان پر اپنی مہر ثبت کررہی ہے ۔
اب ذرا قرآن کی چند آیات کو دیکھیں جن کو اگر جاوید اختر نے ہسٹری کے طور پر ہی پڑھا ہوتا تو شاید ملحد نہ بن جاتا ۔ جاوید اختر نے شاید یہ آیات پڑھ بھی لیں ہوں گی لیکن ان کے ذہن ملحدی نظریات کی وجہ سے کھل نہ سکا ہو۔
قارئین ۔زمین پر پانی خلا سے آیا ہے
آس بات کی تصدیق سائنس آج کررہا ہے لیکن قرآن نے چودہ سو سال پہلے اس کی سچائی بتائی تھی ۔
حال ہی میں ناسا نے خلا میں پانی کے بہت بڑا زخیرہ دریافت کیا ہے ۔ یہ پانی بلیک ہول کے قریب موجود ہے ۔ بلیک ہول وہ جگہ ہے جہاں انسان کا جانا ممکن ہی نہیں ۔
اب ذرا قران کی بات سنیں
سورہ فرقان میں اللہ فرماتا ہے کہ
ہم نے آسمان سے پاک پانی اتاراہے ۔ یعنی پانی زمین پر نہیں تھا اللہ نے اسے اوپر سے بھیجا
آج سائنس کہتی ہے روشنی کی رفتار تقریبا تین لاکھ کلو میٹر فی سکینڈ ہے لیکن یہ بات قرآن میں چودہ سو سال پہلے درج ہے
سورہ السجدہ کی آیت نمبر 5 میں اللہ فرماتا ہے کہ
وہ آسمان سے زمین تک کے تمام کام کی تدبیر کرتا ہے
پھر وہ (فرشتے) اس کے پاس ایک دن میں چڑھتا ہے
اس کی مقدار تمہارے حساب سے ایک ہزار سال کے برابر ہے
یعنی فرشتے ایک دن میں اتنا فاصلہ طے کرتے ہیں جتنا انسان ایک ہزار سال میں طے کرے
چونکہ فرشتے نورانی مخلوق ہے وہ روشنی کی ہی رفتار میں فاصلہ طے کرتے ہیں
اگر ایک ہزار قمری سال کا فاصلہ نکالا جائے تو وہ تقریبا 26 ارب کلو میٹر بنتا ہے اور جب اس فاصلے کو ایک دن کے سکینڈز پر تقسیم کیا جائے تو رفتار تقریبا 3 لاکھ کلو میٹر فی سکینڈز بنتی ہے یہ وہی رفتار ہے جو آج سائنس بتارہی ہے اور قرآن نے صدیوں پہلے بیان کی۔۔۔
جاوید صاحب ، ایک بار قرآن کو تاریخی علوم یا ریاضی سمجھ کر پڑھ لیں ۔ یا پھر شعر و شاعری سمجھ کر ہی پڑھ لیتے ۔ مجھے یقین ہے انہیں کچھ نا کچھ ضرور پلے پڑتا ۔۔ لیکن بدقسمتی جب وہ ملحد ہوچا ہے تو سائیکو لاجی کے مطابق اس کا ذہن ، انکار یعنی نو ہی تسلیم کرے گا ۔۔