تحریر۔۔۔ ضمیراحمدناز
دنیا بھر میں بھارت کا مودی جس انداز سے یوگا کو فروغ دے رہا ہے، وہ صرف ایک جسمانی یا ذہنی مشق کی ترویج نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں یوگا کو اقوام متحدہ سے لے کر عالمی اداروں تک ایک "روحانی برانڈ” کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد ہندوتوا نظریے کو سافٹ امیج کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھنا ہے۔ یوگا کے ذریعے بھارت دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ امن، سکون اور روحانیت کا نمائندہ ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں، اقلیتوں پر مظالم، اور مذہبی شدت پسندی اس “روحانیت” کی اصل تصویر دکھا رہی ہیں۔
ایسے میں جب یوگا کو روحانیت کا چہرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حقیقی روحانی شعور کا متبادل دنیا کے سامنے رکھیں۔ "مراقبہ نور” اس روحانی توڑ کا نام ہے — ایک ایسی مشق جو جسم سے آگے روح کی بیداری کی دعوت دیتی ہے۔ یہ مراقبہ انسان کو اس کی اصل پہچان سے جوڑتا ہے۔ یہاں نہ کوئی فرقہ ہے، نہ کوئی زبان، نہ کوئی جغرافیہ۔ صرف ایک تعلق ہے — انسان کا نور سے، اپنے خالق سے، اپنی حقیقت سے۔
مراقبہ نور صرف آنکھیں بند کرنے یا سانس لینے کی کوئی مشق نہیں، بلکہ یہ ایک شعوری سفر ہے — جہاں انسان "میں کون ہوں؟” کے سوال کا جواب خود اپنے اندر تلاش کرتا ہے۔ اور جب انسان اپنی اصل پہچان لیتا ہے، تو نہ وہ غلام بنتا ہے، نہ ظالم، نہ مظلوم۔ وہ صرف اور صرف “نور” کا نمائندہ بن جاتا ہے — جو عدل، سکون، محبت اور مزاحمت کی علامت ہے۔
یہی وقت ہے کہ ہم اپنی نسل کو یوگا کے جسمانی پوز سے نکال کر مراقبہ نور کے شعوری دروازے پر لا کھڑا کریں، جہاں سے وہ احساس، آگہی اور آزادی کے نئے راستے دیکھ سکے۔
مراقبہ نور کا سفر صرف ایک مشق نہیں، ایک فکری بیداری ہے — ایک ایسا دروازہ جو انسان کو اپنی ذات، اپنے رب اور اپنے مقصدِ حیات سے جوڑتا ہے۔ آج جب دنیا یوگا کی چمک دمک میں الجھ کر اصل روحانیت سے دور ہو رہی ہے، ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں، اپنی روشنی کو پہچانیں، اور اپنی نسلوں کو بھی یہ راستہ دکھائیں۔ یاد رکھو، نجات جسم کے زاویوں میں نہیں، شعور کے اجالوں میں ہے۔ اگر ہم نے "نور” کو اپنا راستہ بنایا، تو نہ صرف اپنے اندر انقلاب لائیں گے بلکہ اس اندھیر نگری کو بھی روشنی کا پیغام دیں گے۔ یہی وقت ہے — سوچ بدلو، کردار بدلو،اپنی سمت روحانیت کی طرف موڑ دو۔