
نئی دہلی ۔۔۔
صاحب۔۔ میرے پاس دہلی جانے کیلئے کرایہ نہیں۔۔ برائے مہربانی ڈاک کے ذریعے ایوارڈ بھیج دیں ۔
یہ درد مندانہ جملے بھارتی شاعر ہلدھر ناگ کے ہیں جنہیں سنہ دو ہزار تئیس میں ادب کے شعبے میں سب سے بڑے ایوارڈ پدم شری سے نواز گیا تھا۔

بندے کی حالت ایسی ہے کہ دہلی میں منعقدہ تقریب میں جانے کیلئے اس کے پاس جیب میں پھوٹی کھوٹی تک نہیں ہے لیکن سرکار نے اسے اعلیٰ ایوارڈ کیلئے نامزد کررکھا ہے۔
غربت کے پس منظر کے درمیان، اوڈیشہ سے تعلق رکھنے والے سمبل پوری زبان کے ماہر ہلدھر ناگ کو پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
اعلیٰ ایوارڈ یافتہ ہلدھر ناگ کے پاس کپڑوں کے محض تین جوڑے، ربڑ کی ایک ٹوٹی ہوئی چپل، اور عینکوں کا ایک جوڑا ہے۔
بھارتی ریاست اوڑیشہ سے تعلق رکھنے والے اور سنبل پوری زبان میں روانی رکھتے ہوئے، ہلدھر ناگ نے ایک مشہور شاعر کے طور پر شہرت حاصل کی ہے۔
بارگڑھ اوڑیسہ کے رہائشی ہلدھر ناگ میگھواڑ محض تین درجے پڑھے ہوئے ہیں۔ یعنی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ تیسری کلاس میں زیر تعلیم تھا تو والدین وفات پا گئے۔ یوں ہلدھر تعلیم جاری نہ رکھ سکا ۔
تعلیم چھوڑ کر اسی اسکول کے آگے پینسل بیچنے والے اس شخص کی کمال کی شاعری کی وجہ سے ۔۔ پرم شری۔۔ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس نے اپنی تمام نظمیں اور 20 مہاکاوی یادداشت کے لیے وقف کر دیے ہیں، جو اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور اپنے فن کے لیے لگن کو ظاہر کرتے ہیں۔
ان کی تحریروں پر مشتمل ایک اورشاعری ممجع جلد شائع ہونے والا ہے۔ اور اس مجمع کو سمبل پور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کیا جائے گا۔
ناگ کی شاعری نہ صرف ادب کو تقویت بخشتی ہیں بلکہ اسکالرز اور شاعروں کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک تحریک کا کام کرتی ہیں۔
ان کے عاجزانہ حالات کے باوجود، ان کی شاعرانہ ذہانت نے نہ صرف انہیں قومی پذیرائی حاصل کی ہے بلکہ ان کی میراث کو برقرار رکھنے کو بھی یقینی بنایا ہے۔ یہ مشکلات سے بالاتر ہنر کی طاقت کی ایک پُرجوش یاد دہانی ہے اور بھارت کی سمجھدار پدم شری سلیکشن کمیٹی کو خراج تحسین ہے۔
اوڑیسہ کی یونیورسٹی نے ہلدھر کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازاہے ۔ یوں اب تین جماعتیں پڑھنے والا ہلدھر اب نہ صرف پدم شری ایوارڈ یافتہ ہے بلکہ پی ایچ ڈی ہولڈر بھی ہے۔