
راولپنڈی میں غیرت کے نام پر قتل کے پیچھے جرگے کا اندھا انصاف بے نقاب ہوگیا ۔ سدرہ قتل کیس میں ہوشربا انکشافات سامنے آگئے ۔
راولپنڈی ۔۔۔
بلوچستان طرز پر راولپنڈی میں منعقد ہونے والے غیر قانونی جرگہ نے لڑکی کو قتل کروادیا ۔ راولپنڈی میں غیرت کے نام پر قتل کے پیچھے جرگے کا اندھا انصاف بے نقاب ہوگیا ۔ سدرہ قتل کیس میں ہوشربا انکشافات سامنے آگئے ۔
تفصیلات کے مطابق سدرہ کو 17 جولائی کو جرگے کے حکم پر گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا قتل میں سدرہ کے والد، بھائی، چچا سسر اور شوہر سمیت کئی رشتہ دار شامل تھے ۔ عصمت اللہ کی سربراہی میں جرگے نے سدرہ کو جینے کا حق کھو دینے کا فتویٰ سنایا گیا ۔۔ قتل کے بعد سدرہ کی لاش کو غسل دے کر گھر میں جنازہ پڑھایا گیا۔ لاش رکشے پر پیرودھائی قبرستان لائی گئی اور خود قبر کھود کر دفنایا گیا۔۔ یہی نہیں قبر کے تمام نشانات مٹا دیے گئے، ریکارڈ سے بھی معلومات ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔
پولیس کو مشکوک سرگرمی کی اطلاع ملی ۔ تفتیش کا دائرہ وسیع کیا گیا۔ قبرستان کمیٹی کی رسید بک کا ایک صفحہ غائب تھا ۔رجسٹر میں تحریف کی کوشش کی گئی تھی ، پولیس نے قبرستان کمیٹی کے دفتر سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی۔۔ سی سی ٹی وی میں سدرہ کی لاش پولی تھین میں لپٹی ہوئی، تمام افراد واضح نظر آئے۔ گورکن ارشاد اور قبرستان کمیٹی ممبر گرفتار، کیس کی کڑیاں کھلتی گئی ۔ پولیس نے سسرالی اور والدین کے گھروں سے مزید افراد کو حراست میں لے لیا۔
عدالت نے 28 جولائی کو قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کا حکم دے دیا۔ سدرہ قتل کیس میں اب تک 12 افراد زیر تفتیش ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں ۔ ملزم عصمت اللہ سیاسی جماعتوں سے روابط رکھتا ہے، ماضی میں بھی متعدد مقدمات درج ہوئے۔
چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو ام لیلی اظہر نے واقعے پر نوٹس لے لیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ جرگے ، شوہر یا رشتہ دار کسی کو قتل کرنے کا اختیار نہیں۔ قتل میں ملوث افراد کسی رحم یا رعایت کے مستحق نہیں ،
یاد رہے اس سے پہلے یہ خبریں بھی آئیں تھیں کہ مقتولہ کو کشمیر سے واپس لاکر قتل کر دیا گیا… لڑکی شادی شدہ تھی، شوہر سے جھگڑے پر کشمیر چلی گئی تھی
ایکپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق پولیسں تفتیش سے جڑے ذرائع کے مطابق ضیا الرحمان کی اہلیہ مسماتہ سدرہ خاوند سے ناچاقی پر 11 جولائی کو گھر سے لاپتا ہوئی، باڑہ مارکیٹ کے تاجر رہنما عصمت اللہ اور سدرہ کا والد عرب گل و خاوند ضیا الرحمن سب آپس میں رشتہ دار ہیں۔
سدرہ گھر سے غائب ہوئی تو خاوند و والدین کو اس کے عثمان نامی لڑکے سے مبینہ تعلق کا پتا چلا جس پر تمام افراد اسی علاقے میں عثمان کے گھر گئے لیکن وہ موجود نہ تھا نہ ہی سدرہ ملی۔ 16 جولائی کی شب عصمت اللہ، سدرہ کا والد اور بھائی وغیرہ مظفر آباد گئے جہاں سدرہ کی موجودگی کا پتا چلا، انہوں نے جرگہ کیا ور منت سماجت کرکے سدرہ کو واپس راولپنڈی لے آئے۔
سدرہ کو مظفرآباد سے واپس لانے اور جرگہ منعقد کرنے میں باڑہ مارکیٹ کا تاجر و دکاندار عصت اللّٰہ، سدرہ کا والد عرب گل، خاوند ضیا الرحمن و اس کا والد صالح محمد و دیگر رشتہ دار شامل رہے۔17 جولائی کی صبح 4 بجے عصمت اللّٰہ کی سربراہی میں جرگے نے حکم سنایا کہ گھر سے نکل کر سدرہ جینے کا حق کھو چکی ہے جس پر چچا سسر، والد اور بھائی وغیرہ نے اسے کمرے میں لے جا کر تکیے کے ذریعے دم گھونٹ کر مبینہ طور پر قتل کردیا۔

خواتین نے گھر میں غسل دیا اور عصمت اللّٰہ نے گھر میں ہی نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان کمیٹی کے ممبر و گورکن کی ملی بھگت سے لاش خاموشی سے دفنا کر قبر کے نشانات تک مٹا ڈالے۔
عصمت اللہ کون ہے؟؟
لڑکی کے قتل کا حکم دینے والا جرگہ سربراہ عصمت اللہ ایک بڑی اورپرانی سیاسی پارٹی کے رہنما کا قریبی ساتھی اور لڑکی کا چچا ہے۔
مقتولہ کی جنوری 2025 میں شادی کے 4 ماہ بعد زبانی طلاق ہوئی، طلاق کے بعد مقتولہ نے عثمان سے دوسری شادی کی جس کے بعد جرگہ کے لوگ اسے لے گئے اور قتل کردیا گیا۔