
تحریر : جاوید انتظار
14 اگست یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سیاسی و سماجی، مزدور تنظیمیں ، سرکاری و نجی تعلیمی اداروں سمیت حکومتی و ریاستی ادارے اس دن وطن پرستی کا تجدید عہد کرتے ہیں۔ الفاظ کا چناؤ کا ایسا ذخیرہ سامنے آتا ہے کہ شاید ہی کسی ملک میں ملتا ہو۔ پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا اپنے اپنے انداز میں یوم آزادی مناتے ہیں۔ وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ لیکن کرپشن معاشرے کے وجود سرایت کر چکی ہے۔ جسکا علاج ممکن نہیں ۔ پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔
پاکستان دنیا کے خوش قسمت ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ جس میں سارے موسم ہیں۔ پہاڑ ہیں، دریا ہیں، سمندر ہیں، ریگستان ہیں، قدرتی وسائل ہیں، زرخیز زمینیں ہیں، جفا کش لوگ ہیں، ان سب سے بڑھ کر کل ابادی کا 35 فیصد نوجوان طبقہ ہے ۔ یعنی قدرتی وسائل سے بڑھ کر انسانی توانائیاں ہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بدقسمتی سے قیادت کا فقدان ہے۔ ایسی لیڈرشپ دور دور تک نظر نہیں آتی جو ان قدرتی وسائل اور انسانی توانائیوں کو منظم طور پر مرتب کر کے پاکستان کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت اور احتساب نظر نہیں آتا ۔ان سیاسی جماعتوں پر خاندانی اور شخصیت کا تسلط ہے ۔ جنہوں نے حصول اقتدار کے لئے کرشمہ ساز قوت کے ساتھ ملکر سنگھاسن اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ جب کسی سیاسی جماعت میں جمہوریت اور احتساب نہیں تو ملک میں بھی نہیں آسکتا ۔ قومی سوچ کو مضبوط کرنے کی بجائے بیانیوں میں تقسیم کر کے قوم کو ہجوم بنا رکھا ہے ۔ رہی سہی کسر مذہبی منافرت اور صوبائی عصبیت نے پوری کر دی ہے۔ کسی نے پارٹی ، کسی نے فرقے کی عینک پہن رکھی ہے۔ جس میں وہ اپنی مرضی سے دیکھتے ہیں۔ کسی نے پاکستان کی عینک نہیں پہنی۔ پاکستانی اگر پاکستان کی عینک پہن لیں تو چیزیں مختلف نظر انا شروع ہو جائیں۔ قومی اور ریاستی ادارے تو موجود ہیں ۔لیکن فلاحی و فکری سوچ نہیں۔ ہر ادارہ کرپشن کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔ جس کے اثرات پورے معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ رشوت ، سفارش ، حق تلفی اور نا انصافی کا بازار گرم ہے ۔قومی معیشت اور بجٹ کے فیصلے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے مرہون منت ہیں۔ تعلیمی میدان میں ہم جدید دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ حکمران جماعتیں اور ریاستی ادارے روٹی کپڑا اور مکان کی طرح تعلیم کو انسان کی بنیادی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ دنیا کے مقابلے میں ہمارا تعلیمی نظام بہت پیچھے ہے ۔ عام آدمی کا معیار زندگی قابل رحم حد تک نیچے گر چکا ہے ۔ غربت اور بیروزگاری قومی صلاحیت ، ہنر اور توانائی کو زنگ آلود کر رہی۔ ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں اقتدار کے چکر میں ایک دوسرے کو نیچا دکھ انے میں مگن ہیں ۔انصاف بکتا ہے۔
انسان اور ملک اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ جتنی انکی سوچ ، انکے اہداف اور انکے خواب بڑے ہوتے ہیں۔ سوچ دنیا کے ہر ہدف کو پورا کرنے کی بنیاد ہوتی ہے۔ پاکستان جس کی روشن مثال ہے ۔ پاکستان بھی بننے سے پہلے ایک سوچ تھا ۔ ایک سوچ پیداہوئی کہ ہمیں ایک علیحدہ ملک چاہیے ۔ جس میں ہم اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔ اپنی مرضی کا کاروبار شروع ، ملازمت اور تعلیم حاصل کر سکیں۔ سوچ نے تحریک کی شکل اختیار کرلی ۔ جسے تحریک پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ تحریک کو قائد اعظم کی صورت میں محنتی اور ایماندار قیادت مل گئی۔ جس نے ملکر دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے میں ایک نیا ملک پاکستان اگیا۔ 14 اگست 2025 یوم آزادی ایک بار پھر مثبت سوچ کے ساتھ پاکستان ، پاکستانیت اور پاکستان کے جھنڈے کی سربلندی کے تجدید عہد کا تقاضا کر رہا ہے۔ وطن پرستی اور ذات کی درستگی کا تقاضا کر رہا ہے۔سیاسی استحکام معاشی استحکام کا زینہ ہے۔ سیاسی استحکام کے لئے بڑی جماعتوں کی لیڈرشپ قومی مفاد کے ایک نکاتی ایجنڈے پر سر جوڑ کر بیٹھیں۔ کرشمہ ساز قوت کے لئے مداخلت کے دروازے بند کریں۔ انکا بگل بچہ بنکر بیساکھیوں پر تین سے چار سال کے اقتدار کے مزے لینے کے لیے سمجھوتہ کرنے کی بجائے اللہ کے بعد عوامی فلاح و بہبود کا کام کر کے ہجوم کو قوم بنانے کا حیلہ کریں۔ نظام اور آئین و قانون کی بالادستی کے لئے بلا امتیاز سب کو جوابدہ بنانے کی سوچ اور نظریہ پیدا کریں۔ سوچ بدل گئی تو پاکستان بدل جائے گا۔ پاکستان آزاد ہو جائے گا ۔ ہر پاکستانی آزاد ہو جائے گا۔ بصورت دیگر ظلم و بربریت کا راج کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لے گا۔آخری بات کے ساتھ اپنا کالم مکمل کروں گا ۔ وہ یہ کہ حالات کبھی نہیں بدلتے انکا رخ موڑا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین