اسرائیلی پارلیمنٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کے دوران احتجاج
یروشلم: اسرائیلی پارلیمنٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کے دوران اس وقت ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی جب ایک عرب نژاد رکنِ پارلیمنٹ نے تقریر کے دوران کھڑے ہو کر فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اطلاعات کے مطابق احتجاج کرنے والے رکن کی شناخت ایمن عودہ کے نام سے ہوئی، جو بائیں بازو کے سیاسی اتحاد “حداش” سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایمن عودہ نے صدر ٹرمپ کی تقریر کے دوران انہیں مخاطب کرتے ہوئے فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا، جس کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں نے انہیں ایوان سے باہر لے جا کر نظم و ضبط بحال کیا۔
خطاب سے قبل ایمن عودہ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا تھا کہ “ایوان میں منافقت کی حد ہو گئی ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی حکومت کو انسانیت کے خلاف جرائم اور فلسطینیوں کے خون سے بری نہیں کیا جا سکتا۔ میں یہاں صرف جنگ بندی اور امن معاہدے کے احترام کے لیے موجود ہوں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی امن، انصاف اور سلامتی تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل فلسطین پر سے قبضہ ختم کرے اور اسے ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ایمن عودہ کا یہ جرات مندانہ احتجاج اسرائیلی سیاست میں بڑھتی ہوئی تقسیم اور جنگ بندی کے بعد کے پیچیدہ حالات کی عکاسی کرتا ہے۔
اپنے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع کو “مشرقِ وسطیٰ کے ایک نئے تاریخی دور کا آغاز” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ غزہ میں تعمیر نو اور دیرپا امن کے قیام پر توجہ دی جائے۔
ٹرمپ نے کہا کہ “اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ایک تاریخی لمحہ ہے۔ بندوقیں خاموش ہو رہی ہیں اور امن آرہا ہے۔ عرب اور مسلم ممالک نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ لوگوں کو لگتا تھا کہ ہم غزہ میں امن کی کوششوں پر وقت ضائع کر رہے ہیں، مگر اب یہ وقت ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “اسرائیل نے طاقت کے بل پر وہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے جو ممکن تھا۔ اب وقت ہے کہ ان کامیابیوں کو مشرقِ وسطیٰ کی خوشحالی میں تبدیل کیا جائے۔”
صدر ٹرمپ نے امن معاہدے کے لیے ریئل اسٹیٹ ڈویلپر اسٹیو وٹکوف کی کوششوں کو بھی سراہا۔
کنیسٹ میں خطاب کے بعد صدر ٹرمپ مصر روانہ ہوں گے جہاں وہ امن معاہدے سے متعلق بین الاقوامی سربراہی اجلاس کی مشترکہ صدارت کریں گے۔