
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں شادی کے تیسرے چوتھےروز ہی نئی نویلی دلہن کوکیچن سمیت دیگر گھریلو ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ ابھی لڑکی کی مہندی نہیں اتری اور رشتہ داروں کی جانب سے دعوتوں کا سلسلہ جاری ہی ہے کہ دلہن کو چن چن کرگھر کے کام بانٹ کر دیئے جاتے ہیں ۔
لیکن دنیا میں ایک ایسا ملک اور ایسا خطہ بھی ہے جہاں شادی کا مطلب ہے دلہن کے لیے 4 سال تک کام کاج سے پوری آزادی۔
جنوبی سوڈان کے ڈینکو قبیلے میں شادی کا یہ قدیم رواج ہے کہ لڑکی کو چار سال تک دلہن کا ہی درجہ رہتا ہے یعنی اسے کھانے پکانے سے مکمل چھوٹ یا استثنیٰ مل جاتا ہے
ایک سو سے پانچ سوگائے تک کے جہیز کی ادائیگی کے باوجود خواتین کے ساتھ خدائی سلوک کیا جاتا ہے۔
مرد کی شادی ہو جائے تو اس کی بیوی 4 سال تک کھانا پکائے گی نہ جھاڑو دے گی۔ چار سال کی یہ مدت سخاوت مندانہ استقبال کہلاتی ہے ۔ یہ نئی دلہن کے لیے آرام کرنے اورشوہر کے گھر کی اقدار کا مطالعہ کرنے کی مدت ہوتی ہے۔
اس دوران اس کے شوہر کی بہنیں کھانا پکاتی، برتن دھوتی، لکڑیاں جمع کرتی اور دیگر گھریلو کام کرتی ہیں۔
چارسال کے بعد شوہر ایک بڑی پارٹی کا اہتمام کرتا ہے جسے تھاٹ یعنی کھانا پکانے کا تہوار کہا جاتا ہے۔ اسی تہوار پراس کی بیوی کھانے پکانے کی شروعات کرتی ہے
اگر مرد نے 4 سال کے دوران بیوی کے ساتھ کوئی بدتمیزی کی تو بیوی اسے چھوڑنے کا فیصلہ کرسکتی ہے اور اسے جہیز بھی واپس نہیں کرنا پڑے گا۔