تحریر::مجاہد ذاکراللہ
مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے سیاسی اّفق پر اپنا رنگ جمانے میں کافی حد تک کامیاب ہونے والے انجینٸر شیخ رشید کو اگر پاکستان کا شیخ رشید کہا جاٸے تو بے جا نہ ہوگا۔
پاکستان کے سیاسی راہنما شیخ رشید اور انجینٸر رشید میں اس قدر مماثلت پاٸی جاتی ہے کہ لامحالہ انہیں پاکستان کا شیخ رشید پکارنے کو دل چاہتا ہے۔یوں تو بھارت ہر اس کشمیری کو پاکستان کا ایجنٹ قرار دیتا ہے جو ریاست جموں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس کے مستقبل کے حوالے سے بات کرتا ہے۔ اس حد تک تو انجینٸر رشید بھی پاکستانی ایجنٹ اور بھارت کا غدار ہے ۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
1990 میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں عسکریت کا سورج آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگا۔ یہ وہی وقت تھا جب راولپنڈی کی گلیوں کوچوں میں شیخ رشید کی پارلیمانی سیاست انگڑاٸی لے رہی تھی۔ مہنگے اور لمبے لمبے سگاروں کے گہرے کش لینے والےکشمیری النسل ایک چنچل نوجوان بلا اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیتے۔ انہوں نے لبریشن فرنٹ کے حاجی گروپ کی میزبانی کیا کی کہ کشمیر سے قلبی وابستگی رکھنے والےلوگوں کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوٸے۔ پھر اسی بیساکھی کا استعمال کرکے وہ پاکستان کی طاقتور ترین اشرافیہ سے تعلقات قاٸم کرنے میں کامیاب ہوٸے۔
انجینٸر شیخ رشید بھی کشمیر کی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کی اعلی قیادت خاص کر کمانڈر طاہر اعجاز ، دیالگام اسلام آباد کے مسعود احمد تانترے،فاروق احمد مرچہ، اصغر عبدالرحمان،اور ماجد غنی کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہوٸے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہی قربت انجینٸر رشید کو تحریک آزادی کو قلمی معاونت فراہم کرنے پر آمادہ کرگٸی۔ مجاہدمسعود جو ایک دانشور تھے،ہفتہ روزہ چٹان میں تواتر کے ساتھ تحریک آزادی کے حق میں لکھتے تھے۔ مجاہد مسعود کی شہادت کےبعد کچھ عرصہ تک انجینٸر رشید نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔ بعد ازاں کہیں نہ کہیں انجیٸر شیخ رشید کو اسٹیبلشمنٹ کے داٸرے کے اندر گھسنے میں یہ قربت ممد و معاون ثابت ہوٸی۔
ریاضی کے استاد خضرمحمد شیخ جو کہ راقم الحروف کے استاد رہےہیں، کے زیرک فرزند انجینٸررشید وقت کے دھارے کی سمت چلنے اور اسی قوت سے اپنی لیے تواناٸی کشید کرنے میں ماہر ثابت ہورہے ہیں۔ یہی خوبی، اب کے راندہ درگاہ راولپنڈی کے شیخ رشید میں بھی بہ درجہ اتم موجود تھی۔ شیخین میں یہ قدر مشترک ہے کہ بظاہر انہوں نے کرپشن کے دلدل میں اترنے کوٸی کوشش نہیں کی ہے۔ اگر چہ منی لانڈرنگ کے کیس میں بھارتی ایجنسی NIA نے عرصہ دراز سے انجینٸر کو گھسیٹ کر رکھا ہے تاہم کشمیر کا ہر پیر و جوان مردوزن ان الزامات کو بھارتی انتقام گیری سے کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔
انجینٸر شیخ رشید جس عوامی طاقت کے منہ زور گھوڑے پہ اس وقت سوار ہیں، کبھی شیر کشمیر کا لقب پانے والے شیخ عبداللہ اس پہ أیسے سوار تھے کہ تاریخ نے انہیں ایک لقب تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے متعلق یہی کہا کہ
راہرو بھی خود، رفیق بھی خود راہ زن بھی خود۔۔۔۔۔ اک میر قافلہ سارے القاب لے گیا۔
کشمیر کی حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے اس سرچشمےسے کل جماعتی حریت کانفرنس کافی عرصہ فیض حاصل کرتی رہی اورکسی نہ کسی حد تک آج بھی حاصل کررہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ سید علی شاہ گیلانی کے اک اشارہ ابرو سے ریاست جموں کشمیر کی نبض رک جاتی تھی اور رواں بھی ہوتی تھی۔ لوگ سید علی گیلانی کی مالا جپتے تھے۔بھارتی استعمار کے حوالہ سے انہیں اپنا نجات دہندہ قرار دے رہے تھے۔ انہی جذبات کا استحصال کرکے محبوبہ جی نے اقتدار کی راہداریوں میں قدم رکھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ چند ہی ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جو عوامی طاقت کے اس منہ زور گھوڑے پر آخری وقت تک سوار رہتے ہیں۔ لیکن اکثر سواروں کو یہ گھوڑا سرکش ہوکر ایسے پٹخ دیتا ہے کہ وہ عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔
انجینٸر رشید فی الحال اس گھوڑےپہ سوار ہوکر سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات کی دوڑ میں یوسین بولٹ کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
اس میں کوٸی شک و شبہ نہیں کہ انجینٸر رشید ایک سادہ دل اور محنتی انسان ہیں۔وہ لوگوں کے دکھ اور درد بانٹنے کی قوت اورصلاحیت رکھتے ہیں۔
بظاہر وہ ابھی تک اپنے سادہ لباس کو کرپشن کے بدنما داغ اودھبوں سے پاک و صاف رکھنے میں کامیاب رہے ہیں، تاہم یہ ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ نہیں۔ ماضی میں ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے والا وہ پاپولر centiment ہے جس کو مختلف ادوار میں مختلف شخصیات، تنظیمیں اور ممالک Cash کرتے رہے ہیں۔
یہ بھارت مخالف اور آزادی پسند centiment ہے۔ یہ کبھی کسی کو اقتدار کےسنگھاسن پر متمکن کرکے آزادی کے خواب آنکھوں میں سجاتأ ہے۔ تو کبھی مقبول بٹ اور سید صلاح الدین کےسروں پر عسکریت کا سہرا سجا کر آزاددی کی نیلم پری کی تلاش میں سرگرداں رکھتا ہے۔
اب کی باریہcentiment کون سا رخ اختیار کرتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتاٸے گا تاہم ایک بات بلکل عیاں ہے کہ آزادی کا یہ جذبہ کل بھی مضبوط آج بھی طاقتورترین اور فیصلہ کن ہے