سرکاری سکولوں کی نجکاری اور عوام کی ذمہ داری
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت صوبہ پنجاب میں سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ اداروں اور مختلف این جی اوز کو دینے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر بہت لوگوں نے اس ملک خُداداد کے لیئے عالمی سطح پر خدمات سر انجام دی ہیں۔ یہ وہ محکمہ ہے جو ہر غریب کے بچّے کے لیئے زندگی میں آگے بڑھنے کی اک اُمید اور کرن ہے۔ جس نے ہر غریب اور امیر کے لیئے برابری کے اُصولوں کے تحت ہمیشہ یکساں مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہاں پڑھنے والے بچّوں اور بچیوں سمیت ان کے والدین کے لیئے ایک آس اور سہارا ہمیشہ سے موجود رہتا ہے کے کم خرچ میں وہ اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کر کے اس ملک کے لیئے مفید شہری اور اپنے گھرانوں کے لیئے ایک ذریعہ آمدن بن سکتے ہیں۔ حکومتی طور پر عجیب و غریب انداز میں ان سرکاری اسکولوں کو مختلف اداروں کے ذریعے پرائیویٹ کرنا ابھی تک اس بھولی عوام کی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ بعض جگہوں میں اداروں کے پرائیویٹ ہونے پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں اور بعض جگہوں پر بے یقینی کی کیفیت کے ہم ان اداروں کو بچانے کے لیئے کیا کر سکتے ہیں؟ ان اداروں کو اگر بچانا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کے اپنے منتخب نمائندوں کے پاس پہنچ کر اپنا دکھڑا انہیں سنایا جائے۔ آنے والے دنوں اور سالوں میں نج کاری کے مضر اثرات ہم سب بالکل اسی طرح دیکھ سکیں گے جس طرح آج ہم بجلی کی پیداوار آئی پی پیز کے ذمے لگا کر پورے برصغیر کے ممالک جہاں پر بجلی اڑھائی روپے فی یونٹ ہے اور ہم یہ یونٹ شاید ٹیکسز سمیت سو روپے سے بھی اوپر دے کر حاصل کر رہے ہیں اور یہ سب اداروں کو پرائیویٹ کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔
یہ صورتِ حال کسی المیے سے کم نہیں کہ شعبہ تعلیم میں مؤثّراصلاحات کے ذریعے بہتری لانے کی بجائے سارے تعلیمی نظام کو پرائیویٹائز کیاجارہا ہے اور سکولوں کوپیف(پیف)کے حوالے کرنے کا یہ سلسلہ مرحلہ وار جاری ہے۔
1973ء کا آئین استاد اور تعلیمی اداروں کو تحفظ دیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ اداروں کو بھی سرکاری بنایا، بے شمار ٹیچرز کو بھرتی کیا جس سے تعلیم کا میعار بھی بہتر ہوا اور استاد کو عزت بھی ملی اور روزگار بھی ملا۔ اگر سرکاری تعلیمی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تونہ صرف تعلیم کا نقصان ہوگا بلکہ بے شمار اساتذہ بھی بیروزگار ہوجائیں گے ۔
اس وقت پنجاب میں پچاس ہزار سے زیادہ سکولوں میں ساڑھے تین لاکھ کے قریب اساتذہ تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں سکولوں سے فارغ ہونے والے اساتذہ کو تو دیگر سرکاری سکولوں میں کہ جہاں اساتذہ کی تعداد کم تھی، ایڈجسٹ کردیا جائے گا مگر ان کے بعد فارغ ہونے والے اساتذہ کہاں جائیں گے۔
پورا سسٹم ہی پرائیویٹائز کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سارا نظام تعلیم ہی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلاجائے گاجو ان سکولوں کو ٹھیکے پر دے کرتعلیم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکیں گے۔
ایک طرف حکومت تعلیمی ترقی کے لئے برٹش کونسل کے اشتراک سے ’’ آن لائن انٹر نیشنل سکول‘‘ جیسے معاہدے کررہی ہے، اور دوسری جانب سرکاری سکولوں کی نجکاری کا عمل بھی زورو شور سے جاری ہے ۔ مستقبل میں پاکستان میں حکمران خاندانوں کی طرح تعلیمی اداروں پر بھی چند خاندانوں کااختیارہوگا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کوزیادہ تر نجی شعبے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پنجاب میں توبڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کی باقاعدہ نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تعلیم کے شعبے کا بجٹ (وفاقی اور صوبائی) انتہائی شرمناک حد تک کم رہا ہے اور اب تو یہ رقم بھی ’پنجاب ایجوکیشن فانڈیشن‘ جیسے اداروں کے ذریعے ’این جی اوز‘ اور نج کاری شدہ سرکاری تعلیمی اداروں کے نئے مالکان کو دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی طرح نام نہاد’’تعلیمی ٹرسٹوں‘‘کو دی جانے والی اربوں روپے کی خطیررقوم کی وضاحت اور جواز سرکاری بجٹ میں کہیں موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں تعلیم کی صورتِ حال کی زبوں حالی کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارا ملک تعلیمی اعتبار سے دنیا میں 160ویں نمبر پر ہے۔
’’پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب‘‘ کی مہم کے ذریعے تعلیم عام کرنے کی جو پالیسی بنائی گئی تھی وہ نئے سرکاری سکول کھولے بغیر کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟پنجاب میں 40 لاکھ مزید بچوں کو سکولوں میں لانے کا ہدف ہے لیکن یہ ہدف محکمہ نے اپنے پاس رکھا ہی نہیں، بلکہ نجی سکولوں کے حوالے کر دیا ہے۔ محکمہ سکولز ایجوکیشن نے بذریعہ مراسلہ یہ واضح کیا ہے کہ لاہور سمیت صوبے کے 36 اضلاع میں کوئی بھی نیا سرکاری سکول سرکاری محکمے کے زیرِ انتظام نہیں کھولا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ تعلیم عام کرنے کے لیے مکمل طور پر نجی سکولوں پر انحصار کیا جائے گا۔ جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سرکاری سکولوں کو ختم کر کے متبادل نجی سکولوں کا جال بچھانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اسی لئے نجی سکولوں کو پھلنے پھولنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔
ایک طرف نجی سکولوں کے نصاب اور فیسوں کو دائرہ کار میں لانے کے لیے اسمبلی میں سکول ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی بحث اور حکومتی اقدامات ہیں تو دوسری جانب نجی سکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (پیف) کے ذریعے سالانہ 9 ارب روپے کا بجٹ تھما دیا گیا ہے۔
پیف(پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن) کو 15۔2014 کے بجٹ میں 7 ارب 50 کروڑ روپے دیے گئے لیکن مزید مطالبے پر 2 ارب 80 کروڑ روپے اضافی دیے گئے۔ رواں تعلیمی سال کے لیے حکومت نے پیف کا بجٹ 10 ارب روپے تک کر دیا ہے جبکہ صوبے میں جن 10 ہزار سے زائد سرکاری سکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں، ان کا بجٹ 15 ارب روپے سے کم کر کے 8 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
پیف کے طریقہ کار کے مطابق نجی سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی فیسوں کی ادائیگی،ایجوکیشن واوچر سکیم کے تحت کر دی جاتی ہے ۔ یعنی جو نجی سکول پیف کے ساتھ الحاق شدہ ہیں، ان کے بچوں کی فیسیں بھی پیف ادا کرتی ہے۔
اس پالیسی سے نجی سکولوں کے گروپس کو مزید مضبوط ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ پیف کے ساتھ پانچ سال پہلے جس مالک نے ایک نجی سکول کا الحاق کروایا، وہ اب دس دس سکولوں کے مالک ہیں۔ پھر بھی حکومت اور بیوروکریسی ان سکولوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی کیونکہ بہت سارے سکولوں میں سیاستدانوں بلکہ خود بیوروکریسی کے نمائندوں کی سرمایہ کاری ہے!
ستم با لائے ستم یہ کہ پنجاب کے تعلیمی منصوبوں کاماسٹر مائنڈ ایک برطانوی ماہرِ تعلیم سر مائیکل باربر ہے جسے حکومت ماہانہ 10 لاکھ روپے ادا کر رہی ہے، جبکہ وی وی آئی پی رہائش کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
سر مائیکل باربر کے کہنے پر شعبہ تعلیم میں پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک کے نصاب میں جو تبدیلیاں کی گئیں ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ کیا اس طرح کے اقدامات کر کے حکومت شرح خواندگی میں اضافہ کر سکتی ہے یا تعلیمی معیار بہتر ہو سکتا ہے؟
معیاری تعلیم کی مفت فراہمی نہ صرف ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے بلکہ آئین کا بنیادی حصہ بھی ہے۔۔۔ وہ آئین جس کے تقدس کی بہت فکر ہمارے حکمرانوں کو رہتی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بہت سے دوسرے بنیادی سماجی فرائض کی طرح حکمران طبقات اور ریاست یہ فریضہ بھی ادا نہیں کر پائے ۔اگر صورتِ حال یہی رہی تو تعلیم غریب بچوں کی پہنچ سے باہر ہو جائے گی۔
جب تک سکول قومی دھارے میں رہیں گے، تب تک توہمارے بچے شاید سستے سکولوں میں پڑھ سکیں۔ مگر جس دن وہ نجی تحویل میں چلے گئے، بچوں سے مختلف حیلے بہانوں سے مختلف قسم کے فنڈ بٹورے جائیں گے۔ اور پھر یوں ہو گا کہ بچے صرف ان خاندانوں کے پڑھیں گے جو امیر ہوں گے۔
یہ سوال جومیرے ذہن میں پیدا ہوا ہے اور بہت سارے لوگوں کے ذہن میں بھی آتا ہوگا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی استعداد کار کو بہتر کیوں نہیں کیا جا سکتا۔سرکاری سکولوں کی تعداد میں اضافہ، اور ان کے معیار کو نجی سکولوں کے معیار کے برابر لا کر ہی تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے۔دوسری جانب حکومت پیف کو اربوں روپے کے فنڈز دینے کے بجائے مستقل طور پر سرکاری سکولوں کو کھول کر ان کی براہ راست سرپرستی کرنی چاہیے۔ نجی سکولوں کو دائرہ کار میں لا کر ان کے نصاب اور فیسوں کو سرکاری سکولوں کے برابر کرنا چاہیے تاکہ تعلیم صرف امیروں تک محدود نہ رہے اور ہمارے بچوں میں یکساں اقدار اور قومی ترقی کا جذبہ پیدا ہو سکے۔