
سید امجد حسین بخاری
پاکستانی شہروں تک ڈرون کیسے پہنچے؟ دشمن کا ڈرون پنڈی اور ملیر جیسے علاقوں تک کیسے پہنچا، اور ہم نے اسے کیوں نہیں روکا؟ ان سوالات کے جوابات ماہرین سے رائے کے بعد حاضر ہیں۔
گذشتہ شب تین بجے کے قریب لاہور کے اوپر ایک ڈرون کو انگیج کیا گیا ۔ اسے گراؤنڈ بیسڈ ائیر ڈیفنس سسٹم سے میزائل کے ذریعے مارا گیا تھا۔ لیکن ایسا کرنے سے پاکستان کا ویپن سسٹم دشمن کے ریڈارز پر ڈیٹیکٹ ہو گیا کیونکہ ان ڈرونز کے ذریعے پاکستانی سسٹمز کی ریڈیئیشنز دشمن کے ڈیٹا لنک کے ذریعے ان کے کمانڈ سینٹرز کو منتقل ہو جاتی ہیں، جس سے پاکستان کی پوزیشن واضح ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر پاکستان بار بار انہی سسٹمز کو استعمال کرتا تو دشمن کو تمام اہم دفاعی نظاموں کی لوکیشن مل جاتی۔
اسی دوران پاکستان آرمی نے اندازہ لگایا کہ یہ اسرائیلی ساختہ ڈرونز جان بوجھ کر استعمال کیے جا رہے ہیں تاکہ پاکستان کو اشتعال دلا کر پاک فوج کے سسٹمز کی پوزیشن معلوم کی جا سکے۔ اس لیے افواج پاکستان نے فیصلہ کیا کہ لانگ رینج ائیر ڈیفنس میزائل سسٹمز استعمال نہیں کیے جائیں گے۔
پاکستان بے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور ان ڈرونز کو یا تو جیمنگ یعنی الیکٹرانک طریقے سے ناکارہ کرنا اور اسے نیچے لانا تھا یا اگر یہ نیچے آ جائیں تو انہیں گن ویپن سسٹمز سے مار گرایا جائے۔ وہ دراصل پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو جانچنے (Probe) کی کوشش کر رہے تھے۔ اور انہیں انداز ہوگیا کہ پاکستان انکی ساری حکمت عملی سے واقف ہے اور اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں بھارت کے 32 ڈرونز گرائے جا چکے ہیں۔
یہ تحریر سیکورٹی ماہرین سے گفتگو کے بعد لکھی گئی ہے۔