
پل میں بنا ،پل میں بکھرا ، سی ڈی اے کے اسلام آباد کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرلیا
تحریر:مقصود منتظر
پل میں بنا پل میں بکھرا۔۔ کامیابی کا راز بیان کرنے والا مجمسہ چند چند ساعتیں ہی دیکھ سکا ۔۔ شہر اقتدار اسلام آباد میں دو ہاتھوں پر مشتمل نیا خوبصورت ماڈل ایک دن کی تنقید بھی برداشت نہ کرسکا ۔ عوامی تنقید کے بعد سی ڈی اے نے بھی دونوں ہاتھ کھڑے کرکے شاہراہ ایران ایونیو پر نصب اس یادگار کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
فن پارہ کس چیز کی علامت تھا۔۔۔؟؟؟

سی ڈی اے نے نئے نصب شدہ ماڈل کو خدمت اور اطاعت کا مجسمہ قرار دیا تھا ۔ نئے فن پارے کو اپنے چیئرمین محمد علی رندھاوا کی کامیابی کا راز بھی بتایا تھا ۔ سی ڈی اے کے مطابق اسلام آباد سیکٹر ڈی-12 کی ایران ایونیو پر واقع یہ پُراثر یادگار چیئرمین کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور چیف کمشنر اسلام آباد، محمد علی رندھاوا کے طرزِ قیادت کا علامتی اظہار ہے۔
اس فن پارے کے مرکز میں دو مضبوط ہاتھوں کی شبیہہ ہے، جو دو مختلف کرۂ ہائے (گولوں) کو تھامے ہوئے ہیں — ایک لوہے کا اور دوسرا پتھر کا۔ یہ متضاد عناصر ایک جرات مندانہ فنکارانہ پیغام دیتے ہیں، جو علی رندھاوا کی متحرک، خدمت پر مبنی اور اصولی قیادت کا بصری استعارہ بن چکے ہیں۔
یہ یادگار مفت فراہم کی گئی، جو ملٹی گارڈنز کی جانب سے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبیلٹی کے تحت ایک عطیہ ہے۔ یہ سی ڈی اے کی سڑکوں کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے اور اسلام آباد کو مزید خوبصورت بنانے کی مہم کا حصہ ہے جو اس شہر کو دنیا کے خوبصورت ترین دارالحکومتوں میں سے ایک بنانے کے عزم کا مظہر ہے۔
عوامی تنقید اور طنز
فن پارے کی تنصیب کے فوراً بعد سوشل میڈیا پرتنقید اور طنز طوفان امڈ آیا ۔ لوگوں نے اس کے غیر روایتی ڈیزائن، فنِ تعمیر کے معیار، اور اس کی ظاہری صورت پر سوالات اٹھائے۔ کچھ نے اسے “نامناسب” اور “بدذوقی” کی مثال قرار دیا، جبکہ دیگر نے اس پر طنزیہ میمز بنائے جو وائرل ہو گئیں۔ سوشل میڈیا پر کئی میمز وائر ہوئیں۔ بعض صارفین نے ماڈل کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ، یہاں چکنا ہے کامیابی کا راز ہے ۔شاید اسلام آباد کی انتظامیہ بھی لوگوں کو یہی پیغام دینا چاہتی ہے ۔ بعض نے دو ہاتھوں کو ،گبر ، کے قرار دیا ۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ۔
معروف اینکر اقرار الحسن نے کپڑے میں لپٹے ماڈل کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۔۔۔یہ کوئی انتہائی جاہل ہیں پہلے ویسے اپنی ذلالت کرواتے ہیں پھر اسی ذلالت کو کور کرنے کے چکر میں مزید ذلالت کرواتے ہیں ۔
صارف طیبہ نے بھی تصویر شیئر کی اور لکھا ۔۔۔یہ مجسمہ حکمرانوں کی کارکردگی ظاہر کر رہا ہے۔۔۔۔
تنقد پر فوری رد عمل

عوامی تنقید کے بعد سی ڈی اے نے دونوں ہاتھوں کو کور کیا اور ماڈل کو ہی ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس کے بعد سی ڈی اے کی ٹیم آئی اور فن پارے کو اکھاڑنا شروع کردیا۔ یوں منصوبہ پل میں بنا اور پل میں بکھر بھی گیا ۔ پیسے جو لگے ان کا کیا ۔۔۔ سی ڈی اے کے اس اقدام پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں ۔۔۔ جبکہ سی ڈی اے کے مطابق یہ یادگار مفت فراہم کی گئی، جو نجی ہاوسنگ سوسائٹی کی جانب سے عطیہ کیا گیا۔۔
سی ڈی اے کا یہ اقدام شہری منصوبہ بندی، پبلک آرٹ کی منظوری کے طریقہ کار، اور ادارہ جاتی نگرانی پر ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے۔
شیر کا مجسمہ
یاد رہے اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں کئی ایسے مجسمے لگے جو عوامی تنقید کا نشانہ بنے
ایک بار اسلام اباد کے سیکٹر جی 9 میں شیر کاایک ایسا مجسمہ لگایا گیا تھا جس پر نہ صرف تنقید ہوئی بلکہ لوگوں نے انتظامیہ کا خوب مزاق بھی اڑایا ۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا یہ مجسمہ ملک کی تباہ حال معیشت پر ہنس رہا ہے یا رو رہا ہے ۔۔