CABINET
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق کیس میں عدالتی احکامات، پر عمل درآمد نہ ہونے پر وفاقی حکومت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے وزیراعظم پاکستان سمیت تمام فریقین کو دو ہفتوں میں تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی جانب سے جاری تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے عدالت کے واضح احکامات کے باوجود اپنی رپورٹ جمع نہیں کرائی، جس کے بعد عدالت کے پاس توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ بچا۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں موجودہ عدالتی نظام اور انتظامیہ پر بھی شدید تنقید کی۔ جسٹس اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد "ڈیمولیشن اسکواڈ” کو اسلام آباد ہائیکورٹ لایا گیا،
اور ہم نے انصاف کے ستونوں پر ایک کے بعد ایک حملہ دیکھا۔ ان حملوں نے نظامِ انصاف کو بار بار زخمی کیا اور تقریباً آخری سانسوں تک پہنچا دیا۔
عدالت نے ہائیکورٹ کے اندرونی نظام پر بھی سوالات اٹھائے، یہ کہتے ہوئے کہ ججوں کو ہفتہ وار روسٹر کے ذریعے محدود کیا جا رہا ہے، اور اگر کوئی جج چھٹی کے دوران بھی انصاف فراہم کرنا چاہے تو انتظامیہ اجازت نہیں دیتی۔
عدالت نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حکومت نے عدالتی احکامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا، تاہم سپریم کورٹ نے کسی بھی وجہ سے وہ اپیل سماعت کے لیے مقرر نہیں کی۔ اس پر جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے کہ "ایگزیکٹو کی چالاکیاں کہیں اور ظاہر ہوئیں۔
فیصلے میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کو متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر بروقت رپورٹ جمع نہ کروائی گئی تو توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے اب اس وارننگ کو عملی شکل دے دی ہے، اور حکومت کو اپنا مؤقف واضح کرنے کے لیے آخری موقع دیا ہے۔
یہ پیش رفت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے میں ایک اہم موڑ سمجھی جا رہی ہے، جس میں عدالت بارہا حکومت کو بین الاقوامی سطح پر سفارتی کوششوں کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دے چکی ہے۔