
وفاقی حکومت کے مزید چینی درآمد کرنے کے اقدامات جاری
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس چیئرمین جاوید حنیف کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں ملکی تجارتی پالیسیوں، درآمدات و برآمدات، مالی واجبات اور گاڑیوں کی قیمتوں جیسے اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی جاوید حنیف نے کہا کہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ تجارت ہے، اور امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیرف کو ایک منفرد انداز میں استعمال کر کے عالمی معاشی نظام میں نئی جہتیں متعارف کروائیں۔ اجلاس میں ذیلی کمیٹی کی جانب سے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی جو خورشید جونیجو نے مرتب کی تھی۔
پورٹ میں بتایا گیا کہ ٹی سی پی کو رواں مالی سال میں 15 ارب روپے جبکہ آئندہ مالی سال میں 30 ارب روپے کی ادائیگی کی جائے گی۔ چیئرمین ٹی سی پی نے انکشاف کیا کہ ادارے کے مجموعی واجبات 319 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جن میں سے 88 ارب روپے اصل رقم اور 330 ارب روپے سود کی مد میں ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز اور نیشنل فرٹیلائزر مارکیٹنگ لمیٹڈ سے 230 ارب روپے کی رقم وصول کرنا ابھی باقی ہے، جب کہ صوبوں سے واجبات کی وصولی میں مسلسل مشکلات درپیش ہیں۔
جاوید حنیف نے وزارت خزانہ کو تجویز دی کہ صوبوں سے رقم کی وصولی ایٹ سورس کٹوتی کے ذریعے کی جائے تاکہ سود کی مد میں ہونے والی بھاری ادائیگیوں سے بچا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری محکموں کی غفلت اور تاخیر کے باعث عوامی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
اجلاس میں سونے کی جیولری کی برآمدات پر عائد پابندی کے معاملے پر بھی بحث ہوئی۔ جیولری سیکٹر کے نمائندے نے بتایا کہ مئی میں جیولری کی برآمد پر پابندی عائد کی گئی تھی، جو 30 جون تک نافذ رہی۔ ان کی درخواست تھی کہ برآمدات پر عائد پابندی کو مکمل طور پر ختم کیا جائے تاکہ برآمدکنندگان کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ وزارت تجارت کے حکام نے اجلاس کو بتایا کہ پابندی ختم ہو چکی ہے اور وزیراعظم کو جیولری برآمدات کی بحالی کے لیے سمری بھجوا دی گئی ہے۔ حتمی منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائے گی۔
چینی کی برآمد اور بعد ازاں درآمد پر بھی کمیٹی نے سخت سوالات اٹھائے۔ جاوید حنیف نے کہا کہ یہ امر حیران کن ہے کہ چینی پہلے برآمد کی جاتی ہے اور پھر درآمد کی جاتی ہے، اس میں کسی نہ کسی سطح پر گٹھ جوڑ موجود ہے جس سے چند افراد فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ایڈیشنل سیکرٹری وزارت تجارت نے وضاحت دی کہ چینی کی درآمد وزارت غذائی تحفظ کی جانب سے موصول ہونے والی سمری پر کی گئی، اور اس وقت 50 ہزار میٹرک ٹن چینی کے درآمدی ٹینڈر جاری کیے جا چکے ہیں۔ جاوید حنیف نے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک ذیلی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی جسے منظور کرتے ہوئے عاطف خان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یہ کمیٹی 15 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
اجلاس کے دوران گاڑیوں کی قیمتوں پر بھی گفتگو کی گئی۔ رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز نے کہا کہ پاکستان میں چھوٹی گاڑیاں مہنگی اور بڑی گاڑیاں سستی ہو گئی ہیں جو متوسط طبقے کے لیے پریشان کن صورتحال ہے۔ وزارت تجارت کے حکام نے وضاحت دی کہ اس وقت 850 سی سی تک کی گاڑیوں پر 55 فیصد، 1300 سی سی پر 65 فیصد اور 1800 سی سی پر 75 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد ہے۔
گاڑیوں کی رجسٹریشن میں امریکی ماڈل اپنانے کا فیصلہ
مزید بتایا گیا کہ چھوٹی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی 15 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دی گئی ہے، جبکہ بڑی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی اب بھی 50 فیصد ہے اگرچہ ٹیرف پالیسی کے تحت اسے 90 فیصد تک کم کیا گیا تھا۔ حکام نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں تین سال سے پرانی کاریں درآمد نہیں کی جا سکتیں، تاہم SUV اور دیگر بڑی گاڑیاں پانچ سال تک پرانی درآمد ہو سکتی ہیں۔
جاوید حنیف نے واضح الفاظ میں کہا کہ اعداد و شمار کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی گاڑیاں مہنگی اور بڑی گاڑیاں سستی ہو چکی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت آئندہ آٹو پالیسی میں چھوٹی گاڑیوں کی قیمت کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔
اجلاس میں کیے گئے نکات اور فیصلے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملکی معیشت کو متوازن اور شفاف بنانے کے لیے پالیسی میں جامع اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔