حریت کانفرنس کی رہنما شمیم شال کو او آئی سی کا ایوارڈ سے نوازا گیا
تحریر ۔۔۔ مقصود منتظر
رات گھٹاٹوپ اندھیرے میں ڈوب چکی تھی اور کالی گھٹائیں بھی آہستہ آہستہ برسنا شروع ہوچکی تھیں لیکن سلطان اب بھی تیر کمان سے ایک ایک کرکے تیر کو دیوار کی طرف داغ رہا تھا۔ اسی دوران راہی کا یہاں سے معمول کا گزر ہوا، اس نے دیکھا سلطان ہاتھ سے ماتھے کو صاف کررہا ہے۔ وہ سلطان اور اس کے مشغلے کو اچھی طرح جانتا تھا اسی لیے بلا تکلف آج بھی مزاحیہ انداز میں یہ جملہ کسا۔ دیکھ سلطان اندھیرے میں تیرا تیر ہدف کو نہیں لگ سکتا، بس کرو، رات بہت ہوچکی ہے ، گھر جاکر آرام کرو۔ سلطان نشانہ باندھ رہا تھااور سانس پر قابو کرکے اس نے ایک اور تیر پھینک دیا جو اندھیروں کو چیرتے ہوئے دیوار کو لگ گیا۔۔ سلطان نے تیرکمان نیچے رکھ دیا اورایک بار پھر ماتھے صاف کرتے ہوئے راہی کو یوں جواب دیا ۔ سن راہی آج نہیں تو کل ، تیر ہدف کا جگر چیر کےہی جائے گا، اور اگر ان اندھیروں میں تیر اپنا کمال نہ بھی دکھا پایا تو کیا ہوا صبح تو آنی ہے نا۔۔!

قارئین ! کشمیری عوام بھی پچھلے ستر سال سے بالخصوص نوے کی دہائی سے اندھیرے میں تیر داغ رہے ہیں جو نشانےپر نہیں لگ رہے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر میں ہزاروں سلطان آئے اور گئے، انہوں نے ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کی گرچہ ان کو کوششیں بار آور نہ ہوسکیں تاہم آج بھی کئی لوگ اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اندھیرے میں تیر چلارہے ہیں جو ہدف سے بہت دور گرجاتے ہیں لیکن ان سلطانون کو یہ امید بھی ہے کہ صبح تو آنی ہےاور اجالا ہوکر رہے گا۔ امیدوں سے وابستہ اس قافلے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شامل ہیں جو 90 کی دہائی سے بلا تعطل تحریک آزادی کشمیر کی آبیاری میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں ۔ انہی میں ایک محترمہ شمیم شال بھی ہیں جو کشمیر کی ایک موثر آواز کے طور پر جانی جاتی ہیں ۔
شمیم شال مرحوم پروفیسر نذیر احمد شال کی اہلیہ ہیں۔ نذیر احمد شال کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے کیونکہ انہوں نے قلمی سیاسی اور سفارتی محاذ پر تحریک آزادی کشمیر کیلئے ہمہ وقت خدمات پیش کیں۔ ان کے اس سفر میں ان کی شریک حیات بھی قدم بہ قدم ساتھ رہیں۔ شال صاحب دسمبر 2023 میں داعی اجل کو لبیک کہ گئے۔ ان کی وفات کے بعد بھی شمیم شال نے کشمریوں کی جدوجہد کو اجاگر کرنے کا مشن رکھا۔
نوے کی دہائی میں اگرچہ کشمیر کا چپے چپے اور کوچے کوچے سے۔۔ ہم لیکر رہیں گے آزادی ۔۔ کا نعرہ گونجتا رہا اور تحریک آزادی کے اس قافلے میں بے شمار لوگ ہمہ تن سرگرم تھے لیکن اس کے بعد مصائب ، مشکلات اور ظلم کاایک ایسا دورچلا جہاں تحریک کی صفوں میں شامل رہنا مشکل ہوگیا۔ ایسے حالات میں بے شمار لوگ یا خاموش ہوگئے یا پھر شہادت کا جام پی کر سو گئے ۔ ان پر خطر حالات میں چٹان جیسے مرد بھی ٹوٹ گئے گیا شمیم شال نے اپنا مشن نہیں چھوڑا ۔ وہ ڈٹی رہیں اور ان کا عزم نہیں ٹوٹا۔ انہوں نے حوصلہ نہیں چھوڑا نہ ہی ہمت ہاری ۔ ایک خاتون ہونے کے باوجود مردوں سے بڑھ چڑھ کر تحریک میں حصہ لیا۔ ان کا یہ کردار یہ رول چھپا نہیں رہا بلکہ مقامی سطح کے علاوہ عالمی سطح پر بھی ان کو سراہا گیا ۔ ان کی خدمات کو تسلیم کیا گیا ۔

حال ہی میں اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی نے شمیم شال کو انسانی حقوق کے شعبے میں شیلڈ آف آنر سے نوازا ۔ یہ اعزاز جہاں شمیم شال کی خدمات کا اعتراف ہے وہیں تحریک آزادی میں کشمیری خواتین کے کردار کی بھی دلیل ہے ۔
اگرچہ او آئی سی اپنی اصل اہمیت برقرار رکھنے میں کسی حد تک ناکام تنظیم سمجھی جاتی ہے تاہم پچاس سے زیادہ ممالک کا ایک بڑا نمائندہ پلیٹ فارم یہی ہے ۔ اس پلیٹ فارم سے ایک مظلوم قوم کی بیٹی کو اعزاز ملنا واقعی کشمیریوں کیلئے اعزاز ہے ۔ بدقسمتی سے کشمیری عوام سے خوشیاں بہت پہلے ہی روٹھ چکی ہیں اور ظلم وجبر کے طویل دور دیکھنے والے اس خطے میں انعامات و اعزازات کی وہ قدر نہیں تاہم یہ ایک مسلسل جدوجہد کی ثبوت ہے۔
جموں و کشمیر میں جہاں چھوٹے بڑوں سب نے قربانیاں دی ہیں وہیں خواتین بھی المیات کی اس وادی میں المیہ کا شکار بنیں،ان کی قربانیوں کا شاید ہی احاطہ کیا جاسکتا ۔

کیونکہ یہاں کسی کا شوہر چھینا گیا تو کسی کا بیٹا مارا گیا۔ ہزاروں خواتین نیم بیوہ ہیں ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں ہر خاتون اعزاز کی مستحق ہے ،ہر ماں داد کی قابل ہے ، ہر بہن قابل تحسین ہے۔ لیکن بدقسمی یہ ہے متنازعہ علاقوں میں بہت ہی کم افراد کو عالمی سطح پر پذیرائی ملتی ہے کیونکہ مظلوم کی آواز کو ہمیشہ دبایا جاتا ہے ۔ یہ صرف کشمیر کی نہیں پوری دنیا میں یہ رواج روا ہے ۔ ایسے میں شمیم شال قابل تحسین و قابل فخر ہے جن کی خدمات کو پذیرائی مل گی ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں بے بس اور محکوم قوم کی آزادی کیلئے خدمات جاری رکھنے کی مزید قوت و طاقت عطا فرمائے آمین ۔