گلگت ۔۔۔ روشان دیامری
گلگت بلتستان کے ضلع استور میں اسی کم عمربچیوں عمر رسیدہ مردوں کے ساتھ جبری شادی کا انکشاف ہوا ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر سعدیہ دانش نے شادی کے نام پر کم عمر بچیوں کی خریدو فروخت کو "انسانی اسمگلنگ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے بلکہ قانون کے مطابق بھی ایک سنگین جرم ہے۔
سعدیہ دانش نے استور سے تعلق رکھنے والی متعدد کم عمر بچیوں کی پنجاب اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں شادی کے نام پر منتقلی اور استحصال پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک 70 سے 80 ایسی شادیاں رپورٹ ہوئی ہیں، جن میں بڑی عمر کے نوسرباز مردوں سے نوعمر بچیوں کی شادیاں کروائی گئیں۔ کئی کیسز میں شادیاں فوری طور پر ناکام ہو گئیں، جبکہ متعدد بچیاں آج بھی ظلم، جبر اور تشدد کا سامنا کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک 13 سالہ بچی کو دو مرتبہ شادی کے نام پر بیچا گیا۔

ڈپٹی اسپیکر نے اس عمل کو معاشرتی اقدار، انسانی غیرت اور والدین کے کردار پر بدنما داغ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا بھائی جو بہنوں کے محافظ ہوتے ہیں، جب وہی چند روپوں کے عوض اپنی معصوم بچیوں کا سودا کرنے لگیں، تو انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسے ظالم اور بے ضمیر عناصر کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔”
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان تمام افراد کے خلاف فوری اور سخت قانونی کارروائی کی جائے جو اس مکروہ دھندے میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہیں، بشمول سہولت کار اور خریدار۔ شناختی دستاویزات میں عمر کی جعلسازی میں ملوث افراد کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ڈپٹی اسپیکر نے ضلع استور پولیس کی بروقت کارروائی اور سنجیدہ رویے کو سراہتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے بھی اسی جذبے کے تحت حرکت میں آئیں۔ آخر میں انہوں نے سول سوسائٹی، میڈیا، علما اور عوام سے پرزور اپیل کی کہ وہ اس غیر انسانی عمل کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ آئندہ کوئی بھی معصوم بچی اس ظلم کا شکار نہ بنے