کشمیر کانفرنس
اسلام آباد
پاکستان مینارٹیز کے ادارے لوگوس فاؤنڈیشن پاکستان کے زیرِ اہتمام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک فکری و آگاہی سیمینار منعقد ہوا، جس کا عنوان “Plight of Minorities in India – Kashmiri Muslims: Minority–Majority Paradox” تھا۔ سیمینار میں سیاسی، سماجی و مذہبی رہنماؤں، دانشوروں، صحافیوں، اساتذہ، طلبہ و طالبات اور سول سوسائٹی کے نمائندگان اور مرد و خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
سیمینار میں بھارت میں بسنے والی مختلف اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور آدیواسیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک اور سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ مقررین نے کہا کہ ہندوستان بھر میں حالیہ برسوں میں مذہبی نفرت، ہجومی تشدد، عبادت گاہوں پر حملے، جبری گرفتاریاں اور امتیازی قوانین نے اقلیتوں کی جان، مال، عزت اور مذہبی آزادی کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

سیمینار کے شرکاء نے بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے مسلمان ڈاکٹر خاتون کا نقاب زبردستی کھینچنے کے حالیہ واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ مقررین نے اس واقعے کو محض ایک فرد کا غیر ذمہ دارانہ فعل نہیں بلکہ بھارت میں ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی اقلیت دشمن اور متعصبانہ سوچ کا عکاس ہے۔ آئینی منصب پر فائز شخص کا ایسا رویہ نہ صرف مسلم خواتین کی تذلیل ہے بلکہ بھارت میں اقلیتی خواتین کے لئے سنگین پیغام بھی ہے۔
مقررین نے نشاندہی کی کہ مختلف حیلے بہانوں سے بھارتی مسلمانوں کو ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ دہلی سمیت مختلف علاقوں میں فسادات کے دوران گھروں، مساجد اور کاروباری مراکز کو منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح عیسائی برادری کے چرچوں پر حملے، عبادات کے دوران ہراسانی اور جبری تبدیلیٔ مذہب تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ دلت اور آدیواسی برادریوں کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر تشدد، خواتین سے زیادتیاں اور جبری بے دخلی کو بھارت کے جمہوری دعوؤں پر بڑا سوالیہ نشان قرار دیا گیا۔
سیمینار میں منی پور میں 300 سے زائد چرچوں کی تباہی اور تقریباً 180 عیسائیوں کے قتل کو ایک منظم نسل کشی قرار دیا گیا۔ مقررین نے کہا کہ 1984 میں گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی، بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر ہندوتوا ایجنڈے کے تحت اقلیتوں پر بالادستی مسلط کرنے کی واضح مثالیں ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ وہاں شہری آزادیوں پر قدغنیں، سیاسی قیادت، صحافیوں اور نوجوانوں کی گرفتاریاں، پیلٹ گنز کا بے دریغ استعمال اور جبری گمشدگیاں عالمی ضمیر کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود اقلیت جیسا سلوک برداشت کرنے پر مجبور ہیں جبکہ مسلمانوں اور سکھوں کو منصوبہ بند طریقے سے نشانہ بنا کر آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
پاسٹر سفیر اختر نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب ظلم انتہا کو پہنچتا ہے تو اس کے خاتمے کی گھڑی قریب آجاتی ہے۔ یہی کچھ مقبوضہ جموں کشمیر میں دکھائی دے رہا ہے۔ ہندوستان کشمیریوں پر مظالم کی انتہا کو پہنچ چکا ہے جس کا خاتمہ قریب ہے اور پاکستان کی اقلیتی برادریاں کشمیری عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہے گی یہاں تک کہ وہ استصواب رائے کا حق حاصل کریں گے۔
ایڈووکیٹ پرویز احمد شاہ سیکریٹری جنرل کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا کہ بھارتی آئین اور قوانین میں اقلیتوں کے تحفظ کی شقیں موجود ہونے کے باوجود عملی طور پر اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں جو حکومتی سرپرستی کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے تسلیم شدہ حقِ خودارادیت کے مطابق آزادانہ اور منصفانہ استصوابِ رائے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جموں کشمیر کے ہر شہری کے حق کی جدوجہد اور مطالبہ کررھے ہیں تاکہ انہیں حق رائے دہی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔
پاکستان سکھ کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے سردار رنجیت سنگھ نے کہا کہ جو بربریت گولڈن ٹیمپل سے شروع ہوئی تھی وہ آج کشمیر میں دہرائی جارہی ہے اور کل کسی اور اقلیت کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تاکہ بھارتی جنتا پارٹی کا ہندوتوا ایجنڈے کو عملی جامہ پہنایا جائے جو ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں کے لئے خطرناک ثابت ہوگا اور اس کے روک تھام کے لئے ہمیں دنیا کو باخبر کرکے روکنا ہوگا۔
سیمینار کے اختتامی خطاب میں غلام محمد صفی کنوینئر کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا کہ آج کی یہ تقریب اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کشمیری عوام اپنی جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں بلکہ پاکستان کی تمام اقلیتی و اکثریتی برادریاں ان کے دکھ درد میں برابر کی شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور اس نظریے کو حقیقت میں بدلنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ غلام محمد صفی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں تعلیم، صحت اور سماجی شعبوں میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسیح اور سکھ کمیونٹی کی خدمات قابلِ فخر ہیں اور آج اسلام آباد میں جس قومی و مذہبی یگانگت کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے اسے مستقبل میں بھی تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی یکجہتی اور یگانگت فروغ پاسکے۔
سیمینار کے دوران طلبہ و طالبات نے مس مارگریٹ ڈینیئل کی نگرانی میں گوجری گیت پیش کیا جبکہ “کشمیر بنے گا پاکستان” کے عنوان سے ایک متاثر کن ٹیبلو بھی پیش کیا گیا۔
سابق وزیر ولسن وزیر، بشپ امانت سوترا، سر ہارون، ڈاکٹر ہارون رفیق اور دیگر مقررین نے بھی اپنے خطابات میں بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری مظالم کی شدید مذمت کی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنائے۔
سیمینار کے اختتام پر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی اور انسانی وقار کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرنا ناگزیر ہے کیونکہ خاموشی ظلم کو تقویت دیتی ہے جبکہ انصاف ہی پائیدار امن اور حقیقی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ لوگوس فاؤنڈیشن پاکستان نے اقلیتوں کے مساوی حقوق اور انسانیت کی خدمت کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور جموں کشمیر کی حق پر مبنی جدوجہد کی مکمل حمایت شاملِ حال رہے گی۔