کیلگری…..
جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کیلگری کینیڈا کے رہنما عثمان صادق نے کہا ہے کہ منقسم ریاست جموں و کشمیر کی وحدت، خودمختاری، جمہوری تشخص اور انسانی حقوق کی بحالی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان، آزادکشمیر، لداخ اور بھارتی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کے عوام اپنی تاریخی، قومی اور ثقافتی شناخت کے تحفظ کے لیے پرامن مگر پُرعزم جدوجہد میں مصروف ہیں، کیونکہ ریاست جموں کشمیر کی وحدت اور خودمختاری ہی اس خطے کا حقیقی حل ہے۔عثمان صادق نے واضح کیا کہ جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی ریاست کو ایک مکمل، غیرمنقسم، خودمختار اور جمہوری اکائی کے طور پر دیکھتی ہے، جو کسی بیرونی دباؤ، عسکری تسلط یا مذہبی بنیادوں پر تقسیم کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کی قیادت میں ریاست جموں و کشمیر ایک آزاد، خودمختار اور قانونی حیثیت کی حامل ریاست تھی، جس نے نہ پاکستان سے الحاق کیا اور نہ بھارت سے، بلکہ غیر جانبدار اور آزاد تشخص کو برقرار رکھنے کی کوشش کی، جسے بیرونی مداخلت، فوجی جارحیت اور سیاسی سازشوں کے ذریعے تقسیم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے باسیوں کو ایک خودمختار، جمہوری ریاست میں باوقار، آزاد اور منصفانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، جس میں ان کی زبان، ثقافت، معیشت اور قومی تشخص محفوظ ہو۔
انہوں نے کشمیریوں کے الحاق کو غیر جمہوری، متنازع اور ریاستی وحدت کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ چند غیر منتخب افراد کی جانب سے ایک غیر نمائندہ ادارے میں کیا گیا، جسے کشمیری عوام کی اجتماعی رائے نہیں سمجھا جا سکتا۔ عثمان صادق نے عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے تاریخی، جغرافیائی اور قومی تشخص کے تحفظ کے لیے اپنا سنجیدہ، مؤثر اور غیر جانبدار کردار ادا کریں تاکہ کشمیریوں کو ایک خودمختار، متحد اور پائیدار ریاست کے طور پر منظم کرنے کا راستہ ہموار ہو۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی ہر قسم کی مذہبی انتہاپسندی، عسکری مداخلت یا بیرونی فیصلوں پر مبنی کسی بھی حل کو مسترد کرتی ہے، اور ایک پرامن، سیاسی، قانونی اور عوامی نمائندگی پر مبنی راستہ اپنانے پر یقین رکھتی ہے۔عثمان صادق نے عالمی میڈیا، صحافتی اداروں اور دانشور طبقے سے اپیل کی کہ وہ مسئلہ کشمیر کو صرف دو ریاستوں کے تنازعے کے بجائے ایک تاریخی، انسانی اور قانونی مسئلہ سمجھ کر اس کی کوریج کریں تاکہ جموں کشمیر کے عوام کی آواز عالمی سطح پر سنی جا سکے اور اس دیرینہ تنازعے کا ایک منصفانہ، پائیدار اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل ممکن ہو سکے۔