پانچ اگست دوہزار انیس کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی
تحریر: محمد اقبال میر

پانچ اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرکے نہ صرف کشمیریوں کی شناخت پر ڈاکہ ڈالا بلکہ عالمی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے آئین کی بھی سنگین خلاف ورزی کی۔ کشمیری عوام اس دن کو ہر سال "یومِ استحصالِ کشمیر” کے طور پر مناتے ہیں، تاکہ دنیا کو یاد دلا سکیں کہ اُن پر ظلم ہوا، ان کا تشخص چھینا گیا، اور ایک بار پھر اُن کے حقوق کو پامال کیا گیا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا۔ کشمیری قوم نے ہمیشہ اپنی تاریخ میں قربانیوں سے نئے باب رقم کیے۔ 13 جولائی 1931 کو سری نگر جیل کے باہر اذان دیتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بننے والے 22 شہداء کی داستان ہو، یا 8 جولائی کو برہان وانی کی شہادت، یا 19 جولائی کا وہ تاریخی دن جب کشمیریوں نے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی — ہر تاریخ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی ایک نئی گواہی ہے۔
ہر وہ دن جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں خون بہایا، نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کیا، خواتین کی عصمت دری کی، اور معصوم بچوں سے بینائی چھین لی — کشمیریوں کے حافظے میں وہ دن صرف تاریخ نہیں، ایک عہد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری ان ایام کو صرف یاد نہیں رکھتے، بلکہ ان پر احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، سیمینارز اور دعائیہ تقریبات کے ذریعے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں۔ وہ دنیا کو باور کرواتے ہیں کہ بھارت ایک غاصب، جابر اور فسطائی ریاست ہے، جو کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر کے دنیا کے ضمیر کو دھوکہ دینا چاہتا ہے۔

پانچ اگست 2019 کے بعد بھارت نے جعلی ڈومیسائل قانون کے ذریعے غیر کشمیریوں کو شہریت دے کر آبادی کے تناسب کو بدلنے کی جو مذموم کوشش کی، وہ دراصل کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو مٹانے کی ایک سازش ہے۔ مگر یہ سازش جتنی خطرناک ہے، اتنی ہی غیرقانونی اور ناکام بھی ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری اور ان کے ہمدرد آج بھی بھارت کے اس مکروہ چہرے کو بے نقاب کرنے میں مصروف ہیں۔ اقوام متحدہ ہو یا یورپی پارلیمنٹ، انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہوں یا سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز — کشمیریوں نے اپنی پرامن مزاحمت سے سچ کو پھیلایا ہے۔
پاکستان، جو کشمیریوں کا وکیل ہے، ہمیشہ اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے۔ پاکستانی قوم نے ہر موقع پر کشمیریوں کے درد کو اپنا درد سمجھا۔ سڑکوں پر احتجاج ہو، سفارتی سطح پر آواز ہو، یا میڈیا پر بیانیہ — پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھا۔
تاہم اس سال پاکستان میں پانچ اگست کو ایک عجیب صورت حال جنم لیتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان عمران خان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے اسی دن ملک گیر احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ یقینا سیاسی اختلافات اپنی جگہ اور کسی رہنما کے ساتھ وفاداری بھی قابلِ فہم مگر پانچ اگست کا دن کسی فرد کا نہیں، ایک قوم کی اجتماعی شناخت کا دن ہے۔
اس دن کو سیاسی احتجاج کے شور میں گم کرنا کشمیریوں کی اُس تکلیف دہ تاریخ پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا جسے وہ ہر سال دہراتے ہیں، صرف اس لیے کہ دنیا خوابِ غفلت سے جاگے۔ لہٰذا یہ وقت ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت، کارکنان اور تمام محب وطن پاکستانی سوچیں کہ پانچ اگست کو وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا وہ بھارت کے مظالم کے خلاف کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ یا اُس دن اندرونی سیاسی تقسیم کو ہوا دے کر بھارتی بیانیے کو تقویت پہنچائیں گے؟
یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ پانچ اگست کو ایک قومی یکجہتی کا دن بنائیں۔ اس دن کو سیاست سے بالا تر رکھ کر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں تاکہ بھارت اور دنیا کو پیغام جائے کہ پاکستان کشمیریوں کے حقِ خودارادیت پر آج بھی متحد ہے۔
کشمیری آج بھی پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کی دعاؤں میں آج بھی یہ التجا ہوتی ہے:
"پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ!”
تو پھر کیا ہم اُن کی اس امید کو مایوسی میں بدلنے دیں گے؟یا اُن کے لہو سے لکھی گئی تاریخ کو اپنی وقتی سیاست کی نظر کریں گے؟یہ فیصلہ اب ہم سب کو کرنا ہے۔