
پانچ اگست دوہزار انیس کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی
محمد اقبال میر
آزاد جموں و کشمیر میں 14 اگست کی صبح جیسے بادلوں کے جلوس نے خوش آمدید کہا۔ موسلا دھار بارش، بھیگی سڑکیں اور فضاء میں ایک عجیب سی تازگی تھی۔
سرکاری تقریب کو بھی موسم کی سختیوں کے باعث ایوانِ صدر منتقل کرنا پڑا۔ مگر بارش کے یہ موٹے قطرے اُن قدموں کو نہ روک سکے جو برسوں سے ایک ہی سمت میں بڑھ رہے ہیں —پاکستان کی محبت اور تحریکِ آزادی کشمیر کی تکمیل کی سمت۔
یہ قدم کشمیری مہاجرین کے تھے۔ وہ مہاجرین جو قربانی اور ہجرت کے استعارے ہیں۔ جن کے خوابوں میں اب بھی آزادی کی صبح اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے۔ 14 اگست کی اس بھیگی صبح، برہان وانی چوک مظفرآباد میں یہ قافلہ پاکستان اور کشمیر کے جھنڈے تھامے، بلند آہنگ میں“جیوے جیوے پاکستان”کے نعرے لگاتا پہنچا۔
بارش کا زور اور کپڑوں کا بھیگ جانا بھی ان کے حوصلے کو کم نہ کر سکا۔ چند ایک کے سوا کسی کے سر پر چھتری نہیں تھی، مگر ان کے عزم کی چمک موسم کی ہر تیرگی پر غالب تھی۔
یہ منظر کسی وقتی جوش کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی کمٹمنٹ کا مظہر تھا جو برسوں سے پروان چڑھ رہی ہے۔ تحریکِ آزادی کشمیر کے شہداء کی قربانیوں کا تسلسل، اور اسلاف کا وہ علم جو آج بھی ہاتھوں میں تھامے نسل در نسل آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت سے شروع ہونے والی یہ داستان نوے کی دہائی میں نئے ولولے کے ساتھ آگے بڑھی، جب ظلم و جبر سے تنگ آکر ہزاروں کشمیری اپنے گھربار چھوڑ کر آزادکشمیر آئے، مگر دل میں پاکستان کا خواب مزید گہرا کر گئے۔
آج یہ مہاجرین آزادکشمیر آزمائش سے گزر رہے ہیں مگر اس کے باوجود ایک چیز جو کبھی کمزور نہیں پڑی وہ پاکستان سے والہانہ محبت ہے۔ یہ وہی جذبہ ہے جو قیامِ پاکستان کے وقت عوام اور مہاجرین کے دلوں میں موجزن تھا۔ آج بھی یہ لوگ کلمہ حق بلند کرتے ہوئے ہر مشکل کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
انہیں آزادی کی قدر کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ ان کے والدین، بہن بھائی اور عزیز و اقارب آج بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی جبر اور ریاستی دہشتگردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ نہ یہ ان سے مل سکتے ہیں اور نہ اپنے ان آبائی گاؤں اور شہروں میں جا سکتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔
جن کے والدین، عزیز و اقارب بغیر ملاقات کے ملاقات کی آس لیئے دارفانی سے کوچ کرگئے، بے شک ایک صدمے میں ہیں مگر ایک حوصلہ ایک امید اب بھی باقی ہے وہ ہے آزادی کی۔ جدائی نے ان کے دلوں میں ایک چبھن ضرور پیدا کی ہے، مگر اسی نے ان کی محبت اور عزم کو اور مضبوط کیا ہے۔
پاکستان کی سالگرہ پر ان کا یہ پیغام ہم سب کیلئے آئینہ ہے۔ ایک یاددہانی کہ آزادی کا مطلب صرف جشن منانا نہیں بلکہ قربانی دینا اور اسے برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔ آج کے دن یہ مہاجرین ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک ایمان اور ایک امانت ہے۔
یہ مناظر حکومت اور عوام دونوں کے لیے ایک سوال بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ کیا ہم نے اُن خوابوں کی حفاظت کی ہے جن کے لیے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں؟ کیا ہم نے اُن مہاجرین کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے جو اپنے گھر بار قربان کر کے یہاں آئے؟
شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم پاکستان کے جشن کے ساتھ اُن لوگوں کو بھی یاد رکھیں جو اپنی پوری زندگی اس کے نام کر چکے ہیں۔ کیونکہ ان کے عزم، محبت اور قربانی کے بغیر پاکستان کی کہانی ادھوری ہے—اور کشمیر کی آزادی کا خواب بھی۔