
تحریر۔۔۔۔ جاوید انتظار
سیاست کے دو بڑے پہلو ہیں۔ ایک پہلو سیاست خدمت ہے ۔ دوسرا پہلو سیاست ایک بے رحم کھیل ہے ۔ سیاست کے اسرار و رموز ہر کسی کو سمجھ نہیں آسکتے ۔ ایک انسان کی سیاست ہے ۔ جس میں خامیاں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ ایک مکافات عمل والی اللہ کی سیاست ہے۔ جسکا شکار وہ ہوتے ہیں۔ جن سے اقتدار کے نشے میں خوف خدا اٹھ جاتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی سیاست میں خوف خدا کا اٹھ جانا بد قسمتی کی بات ہے۔ میرا اس پر پختہ یقین ہے کہ اللہ جب کسی انسان کو اختیار دیتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اللہ اس انسان سے کوئی کام لینا چاہتا ہے ۔ جو اختیار اور اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر اچھے اور برے میں تمیز کھو دے۔ وہ چاہے یا نہ چاہے مکافات عمل کا شکار ضرور ہوتا ہے ۔
بانی پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان جیل میں قید و بند کی صہوبتیں بڑی دلیری کے ساتھ برداشت کر رہے ہیں۔ عمران خان کی زندگی جہد مسلسل کی قابل تقلید مثال ہے۔ وہ دنیا میں ایک ہیرو اور برانڈ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر ہونے کے باوجود کئی لوگ انکو مرشد کے اعلیٰ درجے پر رکھتے ہیں۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے کہ موصوف عوامی مقبولیت کے باوجود جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ انکے سیاسی سفر خوبیوں اور خامیوں کا حسین امتزاج ہے۔ ایک طرف انہوں نے دو خاندانی سیاسی جماعتوں کے تسلط کے درمیان نیا بیانیہ دے کر اپنی اور تحریک انصاف کی جگہ بنائی ۔ دو صوبوں اور مرکزی حکومت بنائی۔ ایسے پڑھے لکھے اور سیاست سے بیزار ایلیٹ کلاس کی سیاست میں دلچسپی بڑھانے میں کامیاب ہوئے جنکا کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔ 2014 میں 126 روز کا اسلام آباد میں اعصاب شکن دھرنا دے کر نئی رسم کی بنیاد رکھی۔ دھرنے کے حوالے سے متضاد رائے پیدا ہوئی۔ اس رائے میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو خارج الامکان نہیں کیا جاسکتا ۔ اپنے خطابات میں قوم کو ایجوکیٹ بھی کیا۔ مدینہ کی ریاست کا درس دیا ۔ اللہ کے نظام اور احکام کا پرچار بھی کیا۔ دوسری طرف وزیر اعظم بننے کے باوجود اپنے اوپر سے اپوزیشن لیڈر کی چھاپ ختم کرنے میں ناکام رہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو 29 سالوں میں ایک جمہوری ادارہ نہ بنا سکے۔ 2000 میں اقتدار کے لارے پر پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جنرل( ر) پرویز مشرف نے دنیا کو دکھانے کے پینترا بدلا تو موصوف انکے خلاف زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع ہوگئے۔ 2002 کی قومی اسمبلی میں میانوالی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے ۔ اپنا قومی اسمبلی کا ایک ووٹ اس وقت کے وزیر اعظم کے امیدوار فضل الرحمان کو دیا۔ جنکو بعد میں ڈیزل کہتے رہے۔ 2018 میں حصول اقتدار کے لئے تحریک انصاف کے بنیادی منشور پر سمجھوتہ کر کے بیساکھیوں پر اقتدار لے لیا۔ جس میں تحریک انصاف کو سیاسی جماعتوں کا لنڈا بازار بنانے سے بھی گریز نہ کیا۔ فوج کے سربراہ کو بطور وزیراعظم غیر ضروری طور پر پرو ڈیموکریٹک کہتے رہے ۔ بعد ان ہی میر جعفر اور میر صادق کے کرداروں سے ملانا شروع کر دیا ۔ اپنے دور اقتدار میں کرونا وائرس کی وباء کے باوجود اچھے طریقے سے ہینڈل کیا۔ صحت کارڈ جیسا اچھا اقدام کیا۔ ایک نصاب رائج کرنے کی شروعات کرنے کی کوشش کی ۔ قومی لباس اور قومی زبان کو ترجیح دی۔ پھر اقتدار سے باہر نکال دیا گیا ۔ اور 9 مئی کے بعد مختلف کیسز کی زد میں جیل یاترا کرنا پڑی ۔
جمعرات 21 اگست کو سپریم کورٹ نے عمران خان کو 9 مئی مقدمات میں ضمانت دے دی ۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شفیع صدیقی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے عمران خان کو 9 مئی کے 8 مقدمات کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کے دوران ضمانت دے دی ۔انکی ضمانت کوحکومت اور تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے اپنے ردعمل کے نقطہء نظر سے میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچایا۔ حکومت کہتی ہے کہ 9 مئی کا ٹرائل ابھی جاری ہے۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان 14 سال کے سزا یافتہ ہیں۔ جو اربوں روپے حکومت پاکستان کو ملنے تھے۔ وہ جرمانے کی مد میں جمع کروائے گئے ۔ انکا دامن پاک صاف تھا تو عمران خان اور اہلیہ نے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کیوں بنایا ۔ جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت نے عدالتی فیصلے کو قوم کے لئے خوشی کا دن قرار دیا ۔ مرکزی جنرل سیکریٹری پاکستان تحریک انصاف سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 9 مئی کو لے کر پی ٹی آئی کے خلاف ایک فرضی بیانیہ بنایا گیا ۔ جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اب صرف القادر ٹرسٹ کیس رہ گیا ہے۔ اسکا بھی جلد ہمارے حق میں فیصلہ آئے گا ۔ حکومت اور تحریک انصاف کے موقف میں عمران خان کی ضمانت اور بریت کے حوالے سے عوام میں متضاد رائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے عمران خان رہا ہو جائے گا ۔ کوئی کہتا ہے عمران خان اسٹیبلشمنٹ اور حکومت رہائی نہیں دے گی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان اس وقت عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ لیکن مقبولیت اور قبولیت کا قافیہ ردیف نہیں مل رہا۔ تاہم میری ذاتی رائے میں عمران خان کو عوامی عدالت میں پیش کر دیا جائے ۔ پھر انتخابات کے ذریعے عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے ۔ عوامی عدالت کے فیصلے کو سب تسلیم کریں۔ لیکن اس امر کی تکمیل کے لیے جو پُرامن ، منطق اور دلیل سے تحریک چلا کر رائے عامہ منظم کرنے کی صلاحیت کہاں سے لائیں۔ یہ ایک سوال ہے جسکا جواب میں عوام پر چھوڑتا ہوں ۔ بقول شاعر
نشیمن پہ نشیمن کچھ اس طرح تعمیر کرتا جا
بجلی گرتے گرتے اپ بیزار ہو جائے