

تحریر: محمد اقبال میر
آزادکشمیر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ پارلیمانی نظام اپنی توقیر اور وقار کھوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں، خصوصاً پچھلے دو برس کے دوران سیاسی ڈھانچے کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ عوام اب ایوانِ اقتدار میں بیٹھے 53 ارکان کو اپنا نمائندہ نہیں بلکہ اپنا مخالف اور دشمن تصور کرنے لگے ہیں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر افراتفری میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی تیسرا فریق فائدہ سمیٹ لیتا ہے، اور اس خطے میں وہ تیسرا فریق کوئی اور نہیں بلکہ ہندوستان ہے۔ وہی ہندوستان جو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر نظریں جمائے بیٹھا ہے اور اپنے توسیعی عزائم کی تکمیل کے لئے نت نئے حربے آزما رہا ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں جو کچھ ہوا وہ ایک ایسا المیہ ہے جس کی مثال صرف فلسطین میں ملتی ہے، جہاں اسرائیلی مظلوم فلسطینیوں کا خون بہاتے ہیں اور دنیا کے بااثر حکمران محض تماشائی بنے رہتے ہیں۔ کشمیر میں بھی یہی منظر نامہ ابھرا: زبانیں بند کر دی گئیں، گلی کوچے خاموش کرا دیے گئے اور آزادی کی صدا نوّے فیصد دبائی گئی۔
آزادکشمیر، جسے کبھی تحریک آزادی کا بیس کیمپ کہا جاتا تھا، رفتہ رفتہ یوں ”ریس کیمپ“ میں بدل گیا کہ یہاں کے باشندوں کو خود بھی احساس نہ رہا کہ وہ کتنا نقصان کر بیٹھے ہیں۔ آج چھوٹے چھوٹے بچے اپنے والدین سے سوال کرتے ہیں: ہمارے وسائل کون نگل رہا ہے؟ ایسا سوال جن کے آگے بڑے بڑے اہلِ دانش بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر خاص کر مہاجرین جموں وکشمیر کے ارکان اسمبلی الیکشن جیت کر ایوان تک پہنچتے ہیں، وہ پانچ برس کے لئے ایسے پروٹوکول اور آسائشوں میں ڈوب جاتے ہیں کہ فرائض سب فراموش ہی نظر آتے ہیں۔ پھر جب مدتِ اقتدار کا آخری سال آتا ہے تو وہی پرانی سیاست، وہی خوشنما خواب اور وہی کھوکھلے دعوے بیچے جانے لگتے ہیں۔
گزشتہ پانچ برسوں میں جہاں تحریک آزادی کو تقویت ملنی چاہیے تھی، وہاں مفاداتی سیاست نے اپنے جال پھیلا دیے۔ لوگ ششدر رہ گئے کہ اقتدار کے لئے کس طرح لمحوں میں وفاداریاں بدلی جاتی ہیں۔ آج سوشل میڈیا نے کم سن بچے سے لے کر اسّی برس کے بزرگ تک سب کو یہ شعور دیا ہے کہ یہ سب ”گول مال“ ہے۔ یہاں اقتدار موسموں کے ساتھ بدلتا ہے اور جنہیں آزادی کی تحریک کا نگہبان ہونا چاہیے، وہ اقتدار کے غلام نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ محبتیں ماند پڑتی جا رہی ہیں اور نفرتیں ہر روز پروان چڑھ رہی ہیں۔
اس پورے نظامِ بگاڑ میں عوام بھی کسی نہ کسی طور شریک ہیں، مگر اشرافیہ کی شاہانہ زندگی پر سوال بہرحال اٹھتے ہیں۔ تین کھرب دس ارب کا بجٹ، جس میں تقریباً ڈھائی کھرب روپے حکومتِ پاکستان فراہم کرتی ہے، آخر کہاں خرچ ہوتا ہے؟ نئے مالی سال میں 31 ارب روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر رکھے گئے ہیں، مگر عملی طور پر عوام کو کیا نصیب ہوتا ہے؟ زراعت کی مثال ہی لے لیجیے: محکمہ موجود ہے مگر کسان اب بھی پانی کے مسائل سے دوچار ہیں۔ مظفرآباد کی منڈیوں میں 96 فیصد سبزیاں مانسہرہ اور راولپنڈی سے آتی ہیں۔ گویا یہاں کی زمین یا تو بنجر ہے یا بے تحاشا تعمیرات نے اسے نگل لیا ہے۔ صنعت ناپید ہے، روزگار کے دروازے بند ہیں۔
مہاجرینِ جموں وکشمیر کے لئے اسمبلی کی 12 نشستیں مختص ہیں۔ وہ آزادکشمیر میں وزراء اور مشیروں کی مراعات تو لے لیتے ہیں لیکن تحریک آزادی میں ان کا عملی کردار شاذونادر ہی دکھائی دیتا ہے۔ اکثر تو مظفرآباد میں بھارت مخالف تقریبات تک میں شرکت نہیں کرتے۔ اگر انہیں صرف رکنِ اسمبلی تک محدود رکھا جاتا اور ان کی ذمہ داریاں مہاجرین و تحریک آزادی تک مرکوز کی جاتیں، تو صورتِ حال شاید مختلف ہوتی۔ انہیں مصروف رکھنے اور تحریک سے جوڑے رکھنے کے لئے مہاجرین حلقوں میں باقاعدہ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے پروگرام کرائے جاتے تو ان پر اٹھنے والے سوال بھی کم ہو جاتے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ تحریک آزادی کی لازوال قربانیوں کے پیشِ نظر ان نشستوں اور کوٹے کا برقرار رہنا ضروری ہے، جیسا کہ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے کہا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ چیک اینڈ بیلنس بھی ناگزیر ہے تاکہ عوام کے خدشات رفع ہو سکیں۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے 23 اگست کو نیلہ بٹ میں جو تقریب ہوئی اس میں غیر معمولی عوامی شرکت دیکھنے میں آئی۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر مقصد کے ساتھ جڑے رہا جائے تو حالات کی سختی اور موسم کی خرابی بھی عوام کو روک نہیں سکتی۔ اور یہی جذبہ ہے جو بھارت کے غرور کو خاک میں ملا سکتا ہے، جیسے افواجِ پاکستان نے ماضی میں معرکہ حق میں دشمن کو ناکامی سے دوچار کیا تھا۔
آزادکشمیر میں مقیم مہاجرین کے بنیادی مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ سڑکوں پر آ کر ہندوستان کے عزائم کو ناکام بنایا اور دنیا کی توجہ اپنی جدوجہد کی طرف مبذول کرائی۔ اب حکومت پر لازم ہے کہ وہ ان کے مسائل کے حل میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی غیر معمولی تعداد بھی ایک چیلنج ہے۔ ضروری ہے کہ اہم ایام میں ان کی حاضری سو فیصد یقینی بنائی جائے تاکہ نئی نسل جدوجہدِ آزادی سے جڑی رہے اور اپنے حصے کا بھرپور کردار ادا کر سکے۔
پاکستان آج بھی دنیا کا واحد ملک ہے جو کشمیریوں کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہندوستان اپنے توسیعی عزائم کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر آزادکشمیر نے اپنی اندرونی افراتفری ختم نہ کی تو دشمن کو موقع ملنے میں دیر نہیں لگے گی۔اب بھی وقت ہے کہ آزادکشمیر حکومت اپنے قیام کے اصل مقصد کو یاد کرے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد جو منظم تحریک بھارت کے خلاف ابھرنی چاہیے تھی، وہ نہ بن سکی۔ نتیجتاً مسائل بڑھتے گئے اور قربانیاں بڑھتی چلی گئیں۔
اگر ہم نے 23 اگست 1947ء کی طرح ایک مضبوط اور منظم جدوجہد نہ کی تو پھر یہ سب سیاست، یہ سب دعوے اور یہ سب وعدے محض ”کرسی کی جنگ اور خوابوں کا قتل“ ہی ثابت ہوں گے اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔