تحریر: مجاہد ذاکراللہ

سامراج کے منھہ کو جب انسانی خون لگتا ہے، تو اپنی ہوس مٹانےکے لیے وہ، انسانیت کے سینے میں خنجر اتارنے، ننھے بچوں پر شعلے برسانے، نازک کلیوں کو مسلنے، لالہ ہائے دشت سے دھواں اٹھانے، زندہ قلوب کے سینے شک کرنےاور جنون عشق سے بھرے سر أتارنے کے لیے بہانہ تلاش کرتا ہے۔ کوئی افسانہ گھڑ لیتا ہے۔
امریکی سامراج نے کیا فسانہ گھڑ لیا تھا۔ weapons of mass destruction
پلوامہ اور پہلگام کے بہانے کن مقاصد کی تکمیل کے لیے برہمنی سامراج نے تراشے اور خراشے.
انسانیت کے یہ دشمن اپنی بربریت کے لیے جواز بھی انسانی خدمت میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔کہیں وہ قومیت،اقتصادی مفادات، مذہبی ذمہ داری سمجھ کر، Biologically اپنے آپ کو برتر سمجھ کر یا اپنے دفاع کا بہانہ کر کے وہ ہر ستم ازماتے ہیں۔دور حاضر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر انسانیت کا نقش مٹا دیتے ہیں۔ 27 اکتوبر کو بھارتی سامراج نے ایسا ہی ایک بہانہ بنا کر ریاست جموں کشمیر پر فوج کشی کی۔ ریاست کو قبائلی حملہ آوروں سے بچاتے بچاتے بھارتی سامراج کشمیریوں کو صفہ ہستی سے مٹانے کا سامان کر چکا ہے۔
27 اکتوبر بھی ایسی ہی اک سازش کا شاخسانہ ہے۔ جس کی وجہ برصغیر کے اس بدنصیب خطے کو تاریخ کا سب سے بڑا اور گہرا زخم لگا جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک ناسور بنتا چلا گیا۔ پھر وقت کے بدترین سانحات نے اس ناانصافی کے سایے تلے پرورش پائی۔بھارتی سامراج نے اپنے جبری قبضے کو دوام بخشنے کے لیے ہر استعماری حربہ استعمال کرنا شروع کیا۔ ریاست کے نصیب کی خرابی کی یہ بنیادی جڑ ہے۔ پھر ریاست جموں کشمیر میں مرغ چوری سے قتل عام بھارتی فوج کی پہچان بن گئی۔
کشمیر میں ظلم اور خون کی کہانی شروع ہوئی۔پھر یہ خون خا ک صحرا پہ گرا اور کف قاتل پہ جما، پھر یہ خون مساجد اور خانقاہوں میں گرا،طالب علموں کے قرطاسوں پہ گرایا گیا۔ اس خون کو ماٶں کی کوکھ میں بے دردی سے بہایا گیا۔اس خون بے بہا کو خشکی سے لیکر پانیوں تک میں بہایا گیا۔ اس کی ہولی کہیں وسیع و عریض میدانوں تو کہیں برف پوش پہاڑوں پر کھیلی گٸی۔جو تاحال تقریبا پون صدی گزرنے کے باوجود جاری ہے۔ اس نانصافی کو ختم کرنے کا وقت اب آن پہنچا ہے۔ برصغیر کے حالات بھی اسی جانب اشارہ کررہے ہیں۔