
تحریر: انجینئر اصغر حیات

کسی سیانے نے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں جاننا ہے تو کسی کسان سے پوچھ لو، وہ تمہیں بتائے گا کہ بارش کب وقت پر نہیں آئی اور فصل کیسے برباد ہوئی۔ کسی چرواہے سے پوچھ لو، وہ تمہیں بتائے گا کہ چراگاہ کیسے اجڑ گئی اور بھیڑ بکریاں کس طرح پیاس سے بلکیں۔ کسی ماہی گیر سے پوچھ لو، وہ سمندر کی چیخیں سن کر بتا دے گا کہ مچھلیاں کہاں غائب ہو گئیں۔
مگر افسوس! ہم نے یہ سننے والوں کے کان بڑے ہوٹلوں اور سیمینار ہالز میں لگا رکھے ہیں۔ وہاں پروجیکٹر کی روشنی میں، اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں، "کلائمیٹ چینج” پر وہ لوگ لیکچر دیتے ہیں جنہیں گرمی صرف گاڑی کے خراب اے سی سے محسوس ہوتی ہے۔ کسان کی جھریوں میں چھپی کہانی، چرواہے کے کانٹے دار راستے، یا ماہی گیر کی خالی جال میں چھپی سچائی ان کانفرنس رومز کی سلائیڈز پر فٹ نہیں بیٹھتی۔
گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے راوشن گاؤں کا وصیت خان، جو ایک عام سا چرواہا تھا، اس نے نہ پاور پوائنٹ استعمال کیا، نہ ڈرون امیجری دکھائی، نہ کوئی ریسرچ پیپر لکھا۔ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنی زبان سے چیخا:
“سیلاب آرہا ہے! فوراً گھر خالی کرو!”
اور یہ چیخ اس قدر سچی تھی کہ درجنوں جانیں بچ گئیں۔ سرکاری "ارلی وارننگ سسٹم” اگر کام کرتا تو شاید ایک اور رپورٹ بن جاتی، ایک اور انکوائری ہو جاتی، اور ایک اور سیمینار میں اس پر پریزینٹیشن بھی پیش ہو جاتی۔ مگر جانیں؟ جانیں تو بہہ جاتیں۔
وصیت خان نے ثابت کر دیا کہ اصل موسمیاتی ماہر وہ ہے جس کا پسینہ مٹی میں رچ بس جاتا ہے۔ وہ نہیں جس کا نام کانفرنس کے بروشر پر چھپتا ہے۔ اصل ارلی وارننگ سسٹم وہ چرواہا ہے جس نے اپنے موبائل کے سگنل ڈھونڈ کر پورا گاؤں جگا دیا، نہ کہ وہ سرکاری ادارہ جس کے افسران گاؤں تک پہنچنے سے پہلے اپنے ٹی اے/ڈی اے کی فائل کلیئر کراتے ہیں۔
حکومت اگر واقعی انصاف کرنا چاہتی ہے تو آئندہ قومی ایوارڈز میں ان "گمنام پہریداروں” کو یاد کرے، جنہوں نے کسی پروٹوکول یا پریزینٹیشن کے بغیر زندگیاں بچائیں۔ ورنہ یہی کہا جائے گا:
"اصل وارننگ چرواہے نے دی، اصل کام کسان نے کیا، اصل قربانی ماہی گیر نے دی، اور کریڈٹ؟ وہ ہمیشہ بڑے ہوٹل کے سیمینار میں بانٹ دیا گیا۔”