
امام گیلانی اسی ستارے کی مانند اپنی قوم کی تقدیر کے درخشاں ستارے بنے۔
تحریر ۔۔۔ شیخ محمد امین

مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی ہے کہ اپنے بچپن ہی سے قائد حریت امام سید علی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو قریب سے دیکھنے اور ان کی رفاقت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ وہ اکثر ہمارے گھر تشریف لاتے اور اہل خانہ کے ساتھ بے پناہ محبت و شفقت کا برتاو فرماتے۔ بچوں کے ساتھ ان کا انداز ایسا ہوتا جیسے وہ اپنے ہی اہل و عیال سے بات کر رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میری عقیدت و محبت ان سے صرف جذباتی وابستگی نہیں بلکہ ایک وراثتی عطیہ بھی ہے۔
یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ سید علی گیلانی ایک ایسے قائد تھے جو وقت کے نشیب و فراز میں کبھی نہ بدلے۔ ان کے نظریات اور موقف میں کبھی لغزش نہ آئی۔ وہ وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے کے بجائے خود ایک دھارا، ایک سمت، اور ایک معیار بن گئے۔ زندگی کے ہر پہلو میں ان کی عظمت اور وقار نمایاں نظر آتا ہے۔
ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ بحیثیت خطیب ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ان کی تقریر محض الفاظ کا تسلسل نہیں بلکہ ایک ایسا وجدانی پیغام ہوتی تھی جو دلوں پر اثر انداز ہوتاتھا۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات پر ان کی گفتگو سامعین کے دلوں کو جھنجھوڑ دیتی تھی۔ بڑے بڑے علماء بھی ان کی علمی گہرائی اور فہم و ادراک پر حیران رہ جاتے تھے۔ قرآن کی آیات کی تلاوت اور درس قرآن کا انداز ایسا ہوتا کہ گویا یہ کلام ربانی ابھی ابھی نازل ہوا ہو اور سید صاحب ہی اس کے پہلے مخاطب ہوں۔
درس حدیث میں ان کی وضاحت و فصاحت دیدنی ہوتی۔ بڑے بڑے شیخ الحدیث بھی ان کے علم و فہم پر رشک کرتے۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ ایمان کو تازگی بخشتا تھا۔ اسی طرح جب وہ علامہ اقبال کے کلام پر گفتگو کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے اقبال کی روح ان کے اندر بول رہی ہو۔ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر و فلسفے پر ان کی گرفت بے مثال تھی۔ جب وہ اقبال پر گفتگو کرتے تو بڑے بڑے ماہرین اقبال بھی ان کی اقبال شناسی کے سامنے سر جھکا دیتے۔ مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کی حقانیت پر جب وہ تقریر کرتے تو بدترین مخالف اور دشمن بھی خاموش ہو کر رہ جاتے۔
جب وہ مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی پر بات کرتے تو دوست و دشمن سب کو خاموش کر دیتے۔ ان کی بات میں دلیل، جرات اور ایمان کی حرارت ہوتی تھی۔ انہوں نے زندگی بھر رائے شماری اور حق خود ارادیت کا نعرہ بلند رکھا اور کسی دباؤ کے تحت اپنی راہ نہیں بدلی۔
ان کے نزدیک کشمیر محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایمانی فریضہ تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ “ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے”۔ یہ نعرہ محض سیاست نہیں بلکہ عقیدے کی گہرائی سے نکلا ہوا ایک ایمان افروز اعلان تھا۔

علامہ اقبال نے بھی امت مسلمہ کے نوجوانوں کو یہی پیغام دیا تھا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
امام گیلانی اسی ستارے کی مانند اپنی قوم کی تقدیر کے درخشاں ستارے بنے۔
امام گیلانی کی زندگی دراصل صبر، استقامت اور ابتلا کی طویل داستان ہے۔ جیل کی تاریک کوٹھڑیاں، قید و بند کی صعوبتیں، قاتلانہ حملے، مسلسل نظر بندی، اور اپنوں کی بے وفائیاں،یہ سب کچھ ان کے عزم کو توڑ نہ سکے۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہتی تھی۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ مایوسی کفر ہے اور ایک مومن کبھی مایوس نہیں ہو سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی استقامت دشمن کے لیے ایک معمہ بنی رہی۔ طاقت کے تمام ہتھکنڈے ناکام ہوگئے مگر وہ فولاد کی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
اقبال نے ایسے ہی کردار کے بارے میں کہا تھا:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جب ظلم و جبر کے تمام حربے ناکام ہوگئے تو دشمن نے یکم ستمبر 2021 کو ان کے بے جان پیکر کو بھی عوام سے چھپانے کی کوشش کی۔ پوری وادی میں سخت کرفیو لگا کر ان کے جسد خاکی کو رات کے اندھیرے میں حیدرپورہ کے ایک قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ یہ مناظر تاریخ میں امام حسینؓ کی شہادت اور حضرت علیؓ کے ساتھ کیے گئے مظالم کی یاد دلاتے ہیں۔
سید علی گیلانی نے اپنی نسبت کا حق ادا کیا اور حسینی کردار کے ساتھ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ حق کی راہ کے مسافر کبھی نہیں مرتے۔ وہ اپنی قربانی اور استقامت کے باعث زندہ جاوید ہیں
آج وہ اس دنیا میں موجود نہیں، لیکن ان کی فکر، ان کی تعلیمات اور ان کی قربانیاں آج بھی زندہ ہیں۔ وہ ایک نظریے کا نام ہیں، ایک استقامت کی علامت ہیں، اور ایک ایسے عہد ساز قائد ہیں جنہیں تاریخ ہمیشہ سنہرے حروف میں یاد کرے گی۔
اقبال نے ایسے ہی مرد مومن کے لیے کہا تھا:
مرد مومن قضا و قدر میں آزاد ہے
اس کی تقدیر ہے حُسن تقدیر کا راز
۔۔۔امام سید علی گیلانی اپنی قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی قربانیاں ہر آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین