
امام گیلانی اسی ستارے کی مانند اپنی قوم کی تقدیر کے درخشاں ستارے بنے۔
تحریر:مجاہد ذاکراللہ

وہ ایک عاشق، بلکہ سچ کہیے کہ عاشق زار تھا۔ ان کا سارا عشق ”کشمیر کی آزادی“ تھا وہ بولتا، لکھتا، دوڑتا، چیختا اور چلاتا رہا مجھے میرا عشق لوٹا دو
وہ پاکستان کا خیر خواہ اور کشمیریوں کا وفادار تھا۔ وہ ناقابل شکست انسان تھے جسے صرف موت نے زیر کیا۔ بھارت کے عقوبت خانے اور قید خانے انہیں خوب آزماتے رہے۔وہ کشمیر سے گرفتار کیےجاتے تو ہزاروں میل دور جودھ پور پہنچا دیے جاتے۔ وہ چھوٹے عقوبت خانے سے نکل کر بڑے جیل کی رونق بن جاتے۔ عدالتوں کی عداوت کا بھی شکار رہے۔ ان کی زندگی شیش محل میں پروان نہیں چڑھی۔ انہیں تختہ دار سے ڈرانے کے بعد تخت کی لالچ سے زیر دام لانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ زوال، ذلت اور شکست کی ہر علامت کو پیچھے چھوڑتا چلا گیا۔ وہ چومکھی لڑائی لڑتا رہا نیشنلزم، سیکولرزم اور لادینیت کے آتش نمرود میں بے خطر کود پڑا۔مسئلہ کشمیر کو حل طلب قرار دے کر وہ سارے زمینی خداؤں سے الجھ پڑا لیکن یہ کوئی حادثاتی بھونچال نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی جوہری تبدیلی تھی ،جس کی وجہ سے سید علی گیلانی نے دنیاوی زندگی کی خوشنما اور دل ربا وادیوں کو چھوڑ کر مادر وطن کے داغ داغ اور تار تار دامن کی چارہ سازی اور رفو گری کا عہد کر لیا۔ سید علی گیلانی کے اس عشق کے آنچل پر لگے ذلت، زوال، شکست اور بد نصیبی کے چھید اور داغ سینے اور دھونے کے لیے جو صبر و ثبات کے ساتھ جت گئے پھر وہ دن بھی آگیا، بقول شاعر
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔
وہ آواز دیتے تو وادی کے کوہ و کمر سے انسانوں کا ہجوم سیلاب کی طرح أمڈ آتا ان کے اشارے ابرو پر کشمیر کا نبض رک جاتا اور رواں ہو جاتا تھا۔ وہ دلوں کا حکمران بنتا چلا گیا نوجوان انہیں آئیڈیلائز کرتے چلے گئے۔

سید علی گیلانی اور شیخ محمد عبداللہ ایسی دو کرشماتی شخصیتیں تھیں جو کشمیری قوم کو اپنے سحر میں جھکڑنے میں کامیاب ہوئیں لیکن یہ گیلانی ہی تھا جس نے بندوں کو بندے کے سحر سے نکال کر آزادی کی نیلم پری کا اسیر بنا لیا۔
بقول شاعر
تکبیر مسلسل کہہ کہہ کر اور خون کے چھینٹے دے دے کر۔۔۔۔۔۔ سوئے ہوئے سورج کو تم نے کن جتنوں سے بیدار کیا
سید علی گیلانی اپنے عشق کے لیے ہر امکان کا ہاتھ تھامنے اور ہر کاوش کی آبیاری کے لیے مستعد اور مضطرب رہتے تھے لیکن جہاں بھی سودا بازی کی کسی سازش کی بو آتی تووہ نفرت اور غیض و غضب کی آواز بن کر گونجنے لگتے۔
سید علی گیلانی ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ ہر کشمیری کے دل کی آواز ہیں۔ وہ تاریخ کے صفحات میں زندہ وجاوید ہیں انہیں تاریخ نے بے شمار القابات سے نوازا۔ بھارتی سامراج کا باغی، اہنی دیوار، شجر سایہ دار، صدی کا رہبر خود ی کا پیمبر، کشمیر کا ٹیپو سلطان، کشمیریوں کا سائبان۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے مرد مومن استقامت کے کوئی گراں سارے القابات لے گیا۔ امام گیلانی جو دشمن کےظلم جور کے ساتھ ساتھ اپنوں کے نشتر بھی سہ گیا لیکن ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی۔ شاید ایسے ہی مرد درویش کے بارے میں کسی نے کہا تھا
لہو میں بھیگے تمام موسم۔۔۔۔ گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے
وفا کے رستے کا ہر مسافر گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے۔