
سمعیہ حجاب کروڑوں روپےغبن کر گئی
رپورٹ ۔۔۔ارسلان سدوزئی
کل تک وہ معصوم چہرہ تھا جسے دیکھ کر لوگ ٹوٹ کر ہمدردیاں لٹا رہے تھے۔ آنسوؤں کے ساتھ ریکارڈ کی گئی ویڈیوز وائرل ہوئیں، پوسٹس میں دکھ اور درد کی کہانیاں سنائی گئیں اور ہزاروں لوگ اس مظلومیت پر یقین کر بیٹھے۔ لیکن چند ہی دنوں میں منظرنامہ بدل گیا۔ نئی ویڈیوز، چیٹ اسکرین شاٹس اور وائس ریکارڈنگز سامنے آئیں اور وہی "مظلوم” اچانک سوالیہ نشان بن گئی۔
ٹک ٹاکرسمعیہ حجاب نے اغواہ ہونے کا ڈرامہ کیا یا حقیقت تھی،لیکن خود کو مظلوم ظاہر کر کے ٹرینڈز میں آگئیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا، استعمال کیا گیا اور پھر تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ان کی باتوں پر ہزاروں افراد نے یقین کیا، لیکن جیسے ہی تحقیقات نے رخ بدلا اور ثبوت منظرعام پر آئے، ان کا مؤقف کمزور پڑنے لگا۔
اس حوالے سے سمعیہ حجاب کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ میں نے عوام کے سامنے اپنی مظلومیت بیان کی، کیونکہ میں نے جو محسوس کیا وہی بتایا۔ لیکن بعد میں جس طرح میری ویڈیوز اور پرائیویٹ چیٹس توڑ مروڑ کر پھیلائی گئیں، اس نے مجھے مجرم بنا دیا۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کرنا سوشل میڈیا پر بہت مشکل ہے۔
اب حالیہ کیس میں بھی کہانی ملتی جلتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک خاتون، جو کل تک بے قصور اور بے بس دکھائی دیتی تھیں، ان کے بارے میں انکشافات نے سب کچھ الٹ کر رکھ دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کے مطابق وہ تعلقات اور محبت کے پردے میں مالی فائدے لیتی رہی ہیں۔ صارفین کا کہنا ہے کہ یہ سب ایک باقاعدہ "دھندہ” بن چکا ہے، جہاں معصومیت محض ایک نقاب ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر "مظلومیت” کے بیانیے کو کس طرح پرکھا جائے۔ کون حقیقت میں مظلوم ہے اور کون صرف ہمدردیاں سمیٹنے کا ماہر؟ سمعیہ حجاب کا کہنا ہے کہ یہ کھیل صرف ایک طرف نہیں ہے۔ کبھی عورتیں دھوکہ کھاتی ہیں، کبھی مرد۔ لیکن جب معاملہ عوامی ہوتا ہے تو زیادہ تر خواتین کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے
سوشل میڈیا کے تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعات ایک نئے رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں ذاتی جھگڑے اور تعلقات کے معاملات عوامی سطح پر اچھال کر "ٹرینڈز” اور "فالوورز” حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت اکثر وہ لوگ ادا کرتے ہیں جو ابتدائی طور پر ہمدردیاں لٹاتے ہیں، اور جب حقیقت کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے تو وہی چہرے نفرت اور تنقید کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
یہ کہانی صرف ایک فرد یا ایک کیس کی نہیں، یہ آج کے معاشرے کی عکاسی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں سچائی اور جھوٹ کے درمیان لکیر دھندلا چکی ہے، جہاں آنسو اور مسکراہٹ دونوں ہی مشکوک لگنے لگے ہیں۔