افغانستان سے جو تقاضا کیا جاتا ہے دیکھا جائے وہ اس قابل بھی ہے
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہوں،افغان حکومت معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی خواہاں ہے ۔ مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد ۔۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان قیادت سے رابطے ہوئے ہیں وہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے ۔ پاک افغان جنگ بندی تو ہوگئی اب زبان بندی بھی ہونی چاہئے۔ ماضی میں بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا تھا اب بھی کرسکتا ہوں۔ سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ دونوں ممالک کو اشتعال کی بجائے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے
انہوں نے کہا ہے کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے کشمیر پر بیان پر واویلا کرنے کی بجائے کشمیر پر اپنے کردار کو بھی دیکھنا چاہئے۔ کشمیر پر پاکستان نے کتنی پالیسیاں بدلی ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ کیا پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح کے مطابق کشمیر کا حل چاہتا ہے اور اس کے لئے کیا پیشرفت کی ہے۔
مولانا نے کہا ہے کہ افغانستان کی انٹیلی جنس اور دیگر عسکری صلاحتیں ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں،۔ افغانستان سے جو تقاضا کیا جاتا ہے دیکھا جائے وہ اس قابل بھی ہے۔ پاکستان ایک عالمی معیار کی فوج اور صلاحیت رکھتا ہے۔ ہماری ریاست کو سوچنا چاہئے کہ کیا مغربی محاذ کھولنا اس وقت کسی طرح درست جنگی حکمت عملی ہے ؟
انہوں نے کہا ہے کہ تحریک لبیک کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا گیا ہے میں نے پہلے بھی مذمت کی اور اب بھی کرتا ہوں۔ حکومت کو کسی بھی صورت تحریک لبیک کے ساتھ تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے تھا۔ احتجاج کرنا سب کا حق ہے۔ میں تحریک لبیک کے قائدین سے رابطے میں رہا ہوں۔ کے پی کے میں وزیر اعلی کے انتخاب کا معاملہ عدالت میں ہے۔ عدالت کو آئین و قانون کے مطابق معاملے کو دیکھنا چاہئے۔ عدالت انتظامی حکم کی بجائے آئینی تقاضے کے مطابق دیکھے اور سماعت کرے