تحریر: محمد اقبال میر

ہر سال 27 اکتوبر کا دن کشمیری قوم کے لیے زخمِ تازہ کا دن بن کر آتا ہے۔ یہ وہ سیاہ دن ہے جب 1947ء میں بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر فوجی قبضہ کر کے نہ صرف کشمیریوں کی آزادی سلب کی بلکہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کو بھی پامال کیا۔ اس دن سے آج تک، یعنی اٹھہتر برس گزرنے کے باوجود، ظلم و جبر کی وہ داستان ختم نہیں ہوئی۔ پانچ لاکھ سے زائد کشمیری اپنی آزادی کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ لاکھوں بے گھر ہوئے، ہزاروں ماؤں کے آنگن اجڑ گئے، بچوں سے باپ کی شفقت چھن گئی، عورتیں بیوہ ہوئیں اور بیٹیوں کی عصمتیں پامال ہوئیں مگر جذبۂ حریت سرد نہیں ہوا۔
کشمیری قوم آج بھی صبر، استقامت اور ایمان کے ساتھ اپنی منزلِ آزادی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان کے عوام اور حکومت نے بھی ہر دور میں کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یومِ سیاہ منایا گیا، جلوس نکلے، تقریبات ہوئیں اور مظلوم کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے پیغامات جاری کیے گئے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو مقبوضہ وادی کے حریت پسندوں کے لیے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔آزاد جموںوکشمیر میں مقیم مہاجرین کے حوصلوں کو تازہ کرتا ہے اور یوں جدوجہد آزادی کیلئے کاوشیں پہلے زیادہ تیز ہوسکتی ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کی اپیل پر لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف، پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیریوں نے بھی یومِ سیاہ منایا۔مظفرآباد جو آزاد جموں و کشمیر کا دل اور دارالحکومت ہے یہاں کے سیاسی حالات ایک افسوسناک پہلو کے ساتھ نمایاں رہے۔ لائن آف کنٹرول کے علاقوں میں اسمبلی رکن فاروق حیدر کی قیادت میں ریلی کا انعقاد کیا گیا، سابق وزیراعظم و رکن اسمبلی سردار عتیق احمد خان نے دھیرکوٹ میں تقریب میں شرکت کی ۔ سپیکر اسمبلی لطیف اکبر، مسلم لیگ ن کے صدر شاہ غلام قادر کا بیان یوم سیاہ کی مناسبت سے سامنے آیا یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ آزاد حکومت ریاست جموںوکشمیر کے قیام کا مقصد تحریک آزادی کشمیر اور تکمیل پاکستان کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کے 53 ارکان میں ماسوائے مذکوران کے ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے یومِ سیاہ کے کسی پروگرام میں شرکت کی توفیق پائی۔ سیاسی بحران اور اقتدار کی رسہ کشی نے عوامی نمائندوں کو اتنا مصروف کر رکھا ہے کہ شاید اب قوم کے زخم ان کی ترجیح ہی نہیں رہے۔مہاجرین جموںوکشمیر مقیم پاکستان کے 12 ارکان جو مقبوضہ جموںوکشمیر کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں بھی خیال نہیں آیا کہ آج کا دن ہمیں شہداء کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا درس دیتا ہے مگر افسوس۔
ہمیں ایک بات یاد رہتی ہے وہ یہ کہ وفاداریوں کے بدلنے کا موسم ہے۔ ایک جماعت سے دوسری جماعت میں شمولیت اب نظریاتی فیصلہ نہیں، بلکہ مفاد کا روایتی کھیل بن چکا ہے۔ سیاست پہلے ہی بدنام تھی، مگر اب یہ بدنامی تحریکِ آزادی پر سایہ ڈالنے لگی ہے۔ اگر حکمرانوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا تو آنے والے دنوں میں اسمبلی اور اقتدار صرف رسمی کارروائیاں بن کر رہ جائیں گے اور عوام کا اعتماد ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گا۔
اس کے برعکس عوام مہاجرینِ جموں و کشمیر اور انصار نے اس روز یومِ سیاہ بھرپور جذبے سے منایا، انہیں حکمرانوں یا اپوزیشن کی موجودگی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ مگر اگر عوام ایک سمت جائیں اور سیاست دوسری تو یہ خلیج بڑھتی جائے گی۔ جو جیسے چل رہا ہے اگر عوام نے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تو انتشار اور بگاڑ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
آئیے، اس سے پہلے کہ ماضی کی غلطیاں مستقبل کا بوجھ بن جائیں، ہم تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ساتھ اپنے عہد کو تازہ کریں۔ ہمیں صرف نعروں سے نہیں، عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم شہداء کے وارث ہیں۔ یہ دنیا، یہ اقتدار، یہ دولت سب عارضی ہیں۔ باقی رہتا ہے تو صرف کردار اور اسی کے بارے میں سوال ہوگا۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں، وہ اللہ کی راہ میں اور حق کی خاطر شہید ہوئے۔ ان کا مقدس لہو ہمیں پکار رہا ہے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کیا، اب تمہاری باری ہے۔
اگر ہم نے اس پکار کو نظرانداز کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور آخرت میں بھی شرمندگی کے سوا کچھ نہ پائیں گے۔
یہ وقت ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، تحریکِ آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ایک مضبوط کردار ادا کریں تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم نے اپنے شہداء کے لہو کی لاج رکھی، اپنے عہد کی تجدید کی اور اپنی ذمہ داری نبھائی۔