تحریر: بن محمد
رات کے سناٹے میں ایک خاموش چیخ گونج رہی ہے — وہ چیخ جو کانوں سے ہو کر دلوں تک، گوشت تک، خون تک اتر جاتی ہے: “ہم جاگیں گے کب؟”
شہیدوں کی سانسیں ابھی فضا میں معلق ہیں، ان کی آنکھیں آج بھی ہمیں تکتی ہیں اور پوچھتی ہیں: کیا یہ خواب بس خواب ہی رہ جائیں گے؟ کیا یہ قربانیاں صرف پتھر پر کندہ تاریخ بن کر رہ جائیں گی؟
چار نسلیں قربان ہوئیں۔
ہزاروں تابوت اٹھائے گئے، ہزاروں جنازے کندھوں سے گزرے، ہزاروں مائیں بین کرتی رہیں، ہزاروں بچے یتیم ہوئے — اور پھر ایک پرسکون سوال: قیادت کہاں تھی؟ وہی لوگ جو ہمارے نام پر تقریریں کر کے اپنے چبوترے سنورتے رہے، آج بھی اپنے تختوں پر محفوظ، اپنے مفادات میں محفوظ، اپنے عہدوں کی گرم گدی میں محفوظ بیٹھے ہیں۔ اور ہم؟ ہم سوئے رہے۔ خواب دیکھتے رہے۔ قربانیوں کو ایک قصے کی مانند سن کر آنکھیں بند کر لیں۔

قربانی کی داستان اور قیادت کی نیند — یہ دو روایتیں آج ایک دوسرے کے متضاد دھاگے ہیں۔ پہلی نسل نے یقین کے ساتھ قدم بڑھائے؛ دوسری نے صبر کے ساتھ زخم اٹھائے؛ تیسری نے موت کو معمول بنا لیا؛ چوتھی نسل جنازوں کے سائے میں پیدا ہوئی۔ ہر نسل نے اپنی صبح کے لیے لقمہ دیا، ہر نسل نے اپنی رات کو خون میں نہلایا۔ مگر قیادت — وہ ہماری صبحوں کی حفاظت کرتی نظر نہیں آئی۔ اس کی بےحسی، اس کا سست جذبہ، ہمارے لیے زہر بنا ہوا ہے۔
ہم جلسوں اور تقریروں میں محبت کے دعوے کرتے رہے — نعرے بلند کیے، بینرز سجائے۔ مگر وہ نعرے ریت کی مانند ہاتھ سے پھسل گئے۔ وعدے ہوا میں گھل گئے۔ نتیجہ؟ انتظار اور افسوس۔ اور انتظار وہ ہے جو امید کو آہستہ آہستہ دمشق بنا دیتا ہے: سخت، کھردرا، بےحسی سے بھرپور۔ قیادت نے عوامی درد کو معمولی سمجھ لیا — شاید اس درد سے اس کے حِصّے چھوٹ گئے، شاید اس نے حساب سے دیکھا کہ کس وقت کیا فائدہ ہوگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ظلم اپنی جگہ ظالم رہا مگر اصل زہر ہمارے اندر ہی پیدا ہوا: اپنے ہی درہمیوں میں گھلتی ہوئی بےحسی۔

شہید؟ وہ جس کے سر پر مٹی پڑی ہے، وہ آج بھی نتیجہ مانگ رہا ہے — محض تقریریں نہیں، عمل مانگ رہا ہے۔ ہم نے آنکھوں میں سفر کے خواب باندھے مگر راستے کا نقشہ نہیں بنایا۔ ہم نے نعرے لگائے مگر منزل کے حساب سے منصوبہ بندی نہیں کی۔ اور جب منصوبہ بندی نہ ہو تو قربانی بھی محض یادگار بن کر رہ جاتی ہے — ایک نام، ایک پتھر، ایک دن کا ذکر۔ شہیدوں نے اپنی جانیں دی تھیں تاکہ عملی تبدیلی آئے؛ اگر وہ تبدیلی نہ آئے تو ان کی قربانی کا مفہوم کیا رہ جائے گا؟
ہر گھر کی اپنی کہانی ہے۔ ہر ماں کا اپنا نوحہ ہے۔ ہر باپ ایک ٹوٹا ستون بن کر رہ گیا، ہر بہن کے آنسو اس خاندان کی خاموش تاریخ لکھتے ہیں، ہر بچہ سوال لے کر بڑا ہوا — سوال جو جواب مانگتا ہے: تم نے ہمیں کیوں چھوڑ دیا؟ ہم نے شکست نہیں کھائی؛ ہم نے جاگنا چھوڑ دیا۔ ہم نے خواب دیکھنا جاری رکھا مگر بیداری ترک کر دی۔ ہم نے نعرے بلند کیے مگر کردار دفن کر دیے۔ شہیدوں کا خون تو آزاد قومیں جنم دیتا ہے، مگر سوئی ہوئی قومیں اس خون کو مزار تک محدود کر دیتی ہیں۔
حقائق اور اعداد و شمار صرف سطریں نہیں، یہ خون کے دھبے ہیں۔ 1990 سے 2024 تک — ہزاروں شہید، لاکھوں زخمی، بے شمار یتیم — اور ہر ضلع، ہر گلی نے اپنی ایک داستان رقم کی: کپوارہ، بڈگام، کولگام، پونچھ،راجوری، اسلام أباد،بارہمولہ، وادی کے گوشے—سب کی اپنی تاریخیں، اپنی چیخیں، اپنی لاشیں۔ مگر سوال یہی ہے: کیا قیادت نے ان سب کو دیکھا؟ یا اس نے اپنی روشنی صرف اسی طرف جلائی جہاں پل صلے گئے؟
•
اب فیصلہ کا لمحہ ہے۔ یا تو ہم قبرستانوں کی چوتھی قطار بڑھائیں گے، یا پہلی مرتبہ نتیجہ پیدا کریں گے۔ جلسے سنیں گے یا منزل تک پہنچنے کی عملی قیمت ادا کریں گے؟ ہم سوجائیں گے یا اٹھ کر اس کہانی کا انجام خود لکھیں گے؟ یہ کالم آنسو بانٹنے کے لیے نہیں — یہ جھنجھوڑنے کے لیے ہے۔ ہم نے بہت عرصہ تک رونا سیکھ لیا ہے، مگر اب ہم نے عمل کرنا ہے۔ اب نعرہ نہیں، اتحاد چاہیے۔ اب آنسو نہیں، فیصلہ چاہیے۔ اب نیند نہیں — اَز خوابِ گراں خیز!
کسی ملک کی قوت صرف اس کے بَندوقوں یا بولنے والوں سے نہیں، بلکہ اس کے لوگوں کے بیدار ہونے سے بنتی ہے۔ جب لوگ اپنی شناخت کے حق میں متحد ہوتے ہیں، تب حق کا راستہ روشن ہوتا ہے۔ مگر اتحاد تبھی ممکن ہے جب قیادت سچے جذبے کے ساتھ عوام کے ساتھ کھڑی ہو — اور آج یہ وہ خلا ہے جو ہمارا اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ قیادت کا فرض ہے کہ وہ عوام کے زخموں پر مرہم لگائے، نہ کہ اپنے عہدوں کی حفاظت کے لیے زخموں کو چھپائے۔
ہماری نسلیں مزید قربانی برداشت نہیں کر سکتیں۔ اس کا وقت گزر چکا ہے جب ہر نئی صبح کسی نئے جنازے کی خبر لاتی تھی۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں، اپنے دلوں میں موجود خاموشی کو توڑیں، اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں۔ اگر ہم آج بھی سو جائیں تو تاریخ یہ فیصلہ لکھ دے گی: “چار نسلیں قربان ہوئیں… مگر پانچویں نسل بھی خوابِ غفلت میں دفن ہو گئی۔” اور اگر ہم جاگ گئے تو تاریخ گواہی دے گی: “انہوں نے دیر سے سہی، مگر آخرکار جاگ کر کہانی بدل دی!”
یہ کالم محض رونا دھونا نہیں — یہ ایک آواز ہے، ایک پکار ہے۔ یہ ان ماؤں اور باپوں کے لیے ہے جنہوں نے اپنی اولاد اپنی گود میں دفن کی، ان بہنوں کے لیے جو لاپتہ گئیں، ان بچوں کے لیے جو یتیم رہے۔ یہ قیادت کے لیے بھی ایک آئینہ ہے — اگر آئینہ صاف ہے تو دیکھو، اور اگر گندہ ہے تو صاف کرو۔ قوم کے سامنے دو راستے ہیں: ایک نیند، دوسری بیداری؛ ایک رونا، دوسری جدوجہد؛ ایک یادگاری، دوسری تبدیلی۔ انتخاب آپ کا ہے۔
آخر میں ایک سچی دعا: اگر ہم نے آج بیداری نہ پائی تو شہیدوں کی روحیں ہمیں معاف نہ کریں گی۔ اور اگر ہم بیدار ہوئے تو وہ آسمان سے ہمارے عزم کو سلام کریں گی۔ اب وقت فیصلہ کا ہے — خوابِ غفلت کو ختم کرو اور سچائی کا عمل شروع کرو۔ اَز خوابِ گراں خیز!