اجرتی قاتلوں کے ذریعے صحافی کو قتل کرانے کی کوشش ناکام
راولپنڈی ۔۔۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی خالد وزیر نے ڈان نیوز کے رپورٹر کی ٹارگٹ کلنگ کی کوشش میں گرفتار 3 ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ عادل سرور سیال کی جانب سے پہلے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کی درخواست پر پولیس سے مقدمہ کا ریکارڈ طلب کرلیا
عدالت نے ملزمان کی بعد از گرفتاری کی درخواست ضمانتوں پر سماعت بھی پانچ نومبر تک ملتوی کر دی ہے ۔
گزشتہ روز سماعت کے موقع پر متاثرہ صحافی و مقدمہ کے مدعی طاہر نصیر کی جانب سے شاہد محمود مغل ایڈووکیٹ پیش ہوئے جنہوں نے ملزمان کی جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے جانے کے فیصلے کے خلاف موقف اختیار کیا کہ پولیس نے آکاش، احمد اور وشال پر مشتمل تینوں ملزمان کو صحافی طاہر نصیر کے گھر کے قریب سے 29 اکتوبر کو اسلحہ اور گاڑی سمیت اس وقت گرفتار کیا جب وہ مدعی مقدمہ کے بارے قرب و جوار سے پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ ابتدائی تفتیش میں ملزمان نے یہ تسلیم کیا کہ قاسم اویس سندھو، سکندر سندھو، اختر سندھو اور محسن شاہ نے تینوں اجرتی قاتلوں کو سینئر صحافی طاہر نصیر کو قتل کرنے کے لئے سپاری دی تھی اور ایڈوانس کے طور پر 99 ہزار روپے انکے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کئے تھے۔
پولیس نے 30 اکتوبر کو تینوں ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ عادل سرور سیال کی عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس کے لئے پولیس کا موقف تھا کہ ملزمان کو گاڑی اور اسلحہ سمیت گرفتار کیا گیا ہے جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری اور قتل کے لئے لی گئی رقم برآمد کرنا ہے لیکن عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے تینوں ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ۔
مدعی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ اصل ملزمان کا سراغ لگایا جانا ہے لہٰذا ماتحت عدالت کو اس اپیل کے فیصلے تک ضمانتوں کی کاروائی سے روکا جائے جس پر عدالت نے مقدمہ کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت 5 نومبر تک ملتوی کردی ۔
تھانہ صادق آباد پولیس نے 29 اکتوبر کو سینئر صحافی و ڈان نیوز کے رپورٹر طاہر نصیر کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120 بی اور 506iiکے تحت مقدمہ درج کیا تھا آکاش علی، احمد اور محمد وشال نامی ملزمان کے خلاف درج مقدمہ کے متن کے مطابق مذکورہ ملزمان مشکوک حالت میں مدعی کے خلاف پوچھ گچھ کر رہے تھے جنہیں مشکوک جان کر اہل محلہ نے انہیں روک لیا جنہوں نے ابتدائی تحقیقات میں یہ تسلیم کیا کہ طاہر نصیر کو جان سے مارنے کے لئے قاسم اویس سندھو، سکندر سندھو، اختر سندھو اور محسن شاہ نے ان سے 2 لاکھ میں ڈیل کی جس میں سے 99 ہزار ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کئے گئے باقی ایک لاکھ کام مکمل ہونے کے بعد ملنا تھے۔