سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت
ڈھاکا – بنگلہ دیش کی خصوصی عدالت انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ کے الزام میں سزائے موت سناتے ہوئے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔
کئی ماہ تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد تین رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنایا جس میں شیخ حسینہ کو دو سنگین الزامات میں سزائے موت جبکہ تین الزامات میں عمر قید کی سزائیں دی گئیں۔
فیصلے کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران مبینہ کریک ڈاؤن کا حکم دینے پر شیخ حسینہ کو بنیادی ملزم قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان مظاہروں میں 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سابق وزیراعظم نے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے خلاف فیصلہ ’’پہلے سے طے شدہ‘‘ ہے۔
خصوصی عدالت نے سابق وزیرداخلہ اسد الزمان خان کمال اور سابق آئی جی پولیس عبداللہ المامون کو بھی انہی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے۔
عدالت نے ساتھ ہی شیخ حسینہ کے اہلخانہ پر سفری پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کے بیٹے سجیب واجد جوائے، بیٹی صائمہ واجد پوتول اور شیخ ریحانہ کی بیٹیوں ٹیولپ صدیقی اور ازمینا صدیقی کا نام بھی پابند فہرست میں شامل کر دیا ہے۔
فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما مونس الٰہی نے کہا کہ ’’بنگلہ دیش کی عدالت نے وسیع پیمانے پر عوام کے قتل پر سزائے موت سنائی ہے۔ ظالم کو اللہ مہلت ضرور دیتا ہے مگر اس کی پکڑ سخت ہوتی ہے۔‘‘
ادھر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ شیخ حسینہ پر ’’قتل عام‘‘ کے ایک اور بڑے مقدمے کی کارروائی بھی شروع کی جائے گی۔
عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ وطن واپس آئیں یا نہ آئیں، مقدمہ ضرور چلے گا کیونکہ ’’قتل عام کے معاملے میں معافی بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی۔‘‘
یہ فیصلہ بنگلہ دیش کے سیاسی منظرنامے میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، جس کے اثرات خطے کی سیاست پر بھی پڑنے کا امکان ہے۔