ملک میں بچوں پر تشدد کے 5 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ
اسلام آباد: سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن نے جنوری سے جون 2025 کے دوران ملک میں بچوں پر ہونے والے تشدد، استحصال اور مختلف جرائم سے متعلق نیشنل فیکٹ شیٹ جاری کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بچوں کے تحفظ کے نظام، پولیس تفتیش اور عدالتی عمل میں سنگین خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر 5 ہزار 97 کیسز رپورٹ ہوئے، لیکن سزا کی شرح مجموعی طور پر انتہائی کم رہی، جو ملک میں انصاف کی فراہمی کے کمزور ڈھانچے کی نشاندہی کرتی ہے۔
ایس ایس ڈی او نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پنجاب میں رپورٹنگ کے نظام میں نمایاں بہتری سامنے آئی ہے، جس کی وجہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے ساتھ بہتر رابطہ کاری، پولیس رپورٹنگ میکنزم میں اصلاحات اور عوامی سطح پر آگاہی میں اضافہ ہے۔
تاہم سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بچوں سے متعلق جرائم کی رپورٹنگ اب بھی تشویشناک حد تک کم ہے، جس سے حقیقی صورتحال جانچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
رپورٹ میں خیبر پختونخوا پولیس کے رویے پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا گیا، کیونکہ متعدد یاد دہانیوں اور کے پی انفارمیشن کمیشن کی واضح ہدایات کے باوجود صوبائی پولیس نے مطلوبہ ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔
ایس ایس ڈی او کے مطابق اس عدم تعاون کی وجہ سے کے پی میں بچوں پر تشدد اور استحصال کی حقیقی تصویر سامنے لانا ممکن نہیں رہا۔
نیشنل فیکٹ شیٹ کے مطابق ملک بھر میں سب سے زیادہ 2 ہزار 695 کیسز چائلڈ بیگری یعنی بچوں سے بھیک منگوائے جانے کے رپورٹ ہوئے، جن میں سب سے بڑی تعداد پنجاب سے سامنے آئی ہے۔
بچوں کے جنسی استحصال کے 899 کیسز، اغوا کے 475 کیسز اور چائلڈ ٹریفکنگ کے 466 کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ چائلڈ ٹریفکنگ میں سزا کی قومی شرح صرف 4.7 فیصد رہی۔
جبری مشقت کے 197 کیسز میں سزا کی شرح صرف 4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ کم عمری کی شادی کے 133، جسمانی تشدد کے 112 اور قتل کے 102 واقعات رپورٹ ہوئے، جب کہ چائلڈ پورنوگرافی کے 16 کیسز بھی شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سزا کی شرح 0.6 فیصد، اسلام آباد میں 2.5 فیصد، سندھ میں 3.1 فیصد اور بلوچستان میں 18 فیصد رہی۔
ایس ایس ڈی او کا کہنا ہے کہ اگرچہ بلوچستان میں سزا کی شرح بظاہر زیادہ ہے، لیکن صوبے میں رپورٹنگ کی شرح انتہائی کم ہونے کے باعث یہ تناسب حقیقت کی درست عکاسی نہیں کرتا۔
تنظیم نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ملک میں بچوں کے تحفظ کے نہایت کمزور نظام کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ بچوں کے جنسی استحصال، تشدد اور ٹریفکنگ جیسے سنگین جرائم میں متاثرہ بچوں کو بروقت انصاف دلانا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
ایس ایس ڈی او نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس اور تفتیشی اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے، بچوں کے لیے دوستانہ رپورٹنگ اور پراسیکیوشن میکنزم قائم کیے جائیں، چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کو فعال بنایا جائے۔