
تحریر: ارشد میر
بھارت میں یہ سوال کہ آیا اگلے پچاس برسوں میں ہندو آبادی اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی، محض ایک عددی یا آبادیاتی بحث نہیں رہا بلکہ ایک گہرا سیاسی، نظریاتی اور بیانیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔ خصوصاً ہندوتوا سے وابستہ حلقے اس سوال کو دانستہ طور پر خوف، نفرت اور سیاسی مفادات کے فروغ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہندو توا نواز نیوز چینل ’’سدرشن نیوز‘‘ کے چیئرمین سریش چوہانکے کے بیانات نے اس بحث کو ایک بار پھر شدت بخش دی ہےجن میں انہوں نے مسلمانوں کو ’’آبادیاتی خطرہ‘‘ قرار دیتے ہوئے نہ صرف ہندوؤں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی بلکہ حکومت سے مسلم آبادی کو کم کرنے کے اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔ چوہانکے کا یہ رویہ کوئی انفرادی یا وقتی لغزش نہیں بلکہ اس منظم ہندوتوا بیانیے کا حصہ ہے جو بھارت کو ایک کثیرالثقافتی اور کثیرالمذہبی ریاست کے بجائے ایک خالص ’’ہندو راشٹر‘‘ میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔
سریش چوہانکے ماضی میں بھی اسلام مخالف، نفرت انگیز اور اشتعال آمیز مواد پھیلانے کے حوالے سے بدنام رہے ہیں۔ حال ہی میں مرکزی وزارتِ ثقافت اور دہلی کی وزارتِ سیاحت کے زیر اہتمام ایک تقریب میں ان کی تقریر اس بات کا واضح ثبوت تھی کہ نفرت انگیز بیانیہ اب صرف حاشیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سرکاری سرپرستی میں مرکزی دھارے کے پلیٹ فارمز تک پہنچ چکا ہے۔ اس تقریر میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی، ہندو راشٹر کے قیام کی وکالت، بھارت کے 25 فیصد مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی بات، چار شادیوں اور ’’مسلمانوں کے زیادہ بچے‘‘ جیسے گھسے پٹے اور غیر سائنسی جملے شامل تھے۔ مزید یہ کہ انہوں نے سامعین کو ہندو راشٹر کے قیام کے لیے حلف لینے پر اکساتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اگر یہ جرم ہے تو وہ اسے بار بار کریں گے۔ یہ طرزِ فکر نہ صرف بھارت کے بظاہرآئینی سیکولر تشخص سے متصادم ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی کے لیے بھی ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔

اگر ہم جذبات اور پروپیگنڈے سے ہٹ کر حقائق اور اعداد و شمار کی بنیاد پر اس سوال کا جائزہ لیں کہ کیا واقعی ہندو آبادی کو مسلمانوں سے عددی خطرہ لاحق ہے تو صورتِ حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ بھارت کی کل آبادی اس وقت تقریباً 138 سے 140 کروڑکے درمیان ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق 2023 میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 19.7 سے 20 کروڑ تھی جو مجموعی آبادی کا لگ بھگ 14.2 سے 14.3 فیصد بنتی ہے۔ یہ تناسب 2011 کی مردم شماری میں بھی تقریباً اتنا ہی تھا۔ یعنی گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں مسلم آبادی کے تناسب میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا جو ہندو اکثریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو۔
آبادیاتی مباحث میں ایک بنیادی اصطلاح Total Fertility Rate یا TFR ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت اپنی تولیدی عمر (15 سے 49 سال) میں اوسطاً کتنے بچے پیدا کرتی ہے۔ بھارت کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS-5) جو 2019 سے 2021 کے درمیان ہوا، کے مطابق بھارت کی مجموعی شرحِ پیدائش 1.9 سے 2.0 کے درمیان ہے۔ اس میں ہندوؤں کی شرح پیدائش1.94 جبکہ مسلمانوں کی 2.3 ہے۔ یہ معمولی سا فرق بظاہر موجود ضرور ہے مگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فرق تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ 1992-93 میں ہندوؤں کی شرحِ پیدائش 3.3 اور مسلمانوں کی 4.4 تھی۔ یعنی تین دہائیوں میں مسلمانوں کی شرحِ پیدائش میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ انڈین ایکسپریس سمیت کئی معتبر بھارتی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مسلم اور ہندو خواتین کی شرحِ پیدائش میں موجودہ فرق محض 0.36 ہے اور یہ فرق بھی مسلسل سکڑ رہا ہے۔
اس کے باوجود آر ایس ایس، بی جے پی اور سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیمیں یہ خطرناک پروپیگنڈا کرتی ہیں کہ اگلے پچاس برسوں میں مسلمان آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہو جائے گی۔ سائنسی اور آبادیاتی نقطۂ نظر سے یہ دعویٰ نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ بدنیتی پر مبنی بھی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صرف TFR کی بنیاد پر پچاس سال بعد کی آبادی کا درست اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں۔ اس کے لیے عمر کی ساخت، نوجوانوں کا تناسب، اموات کی شرح، ہجرت، شہری کاری، تعلیم، خواتین کی معاشی شمولیت اور مستقبل میں TFR کے اتار چڑھاؤ جیسے کئی عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ پچاس سال تقریباً دو نسلوں کے برابر ہوتے ہیں۔ عالمی آبادیاتی اصول کے مطابق Replacement Rate یعنی آبادی کو مستحکم رکھنے کی شرح 2.1 سمجھی جاتی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں TFR اس سطح سے کم ہو تو آبادی پہلے کچھ عرصہ سست رفتار سے بڑھتی ہے، پھر مستحکم ہوتی ہے اور بالآخر کمی کی طرف جاتی ہے۔ ہر نئی نسل پچھلی نسل کے مقابلے میں اوسطاً تقریباً 8 فیصد کم بچے پیدا کرتی ہے۔ یہی اصول مسلم آبادی پر بھی وقت کے ساتھ لاگو ہو رہا ہے کیونکہ ان کی شرحِ پیدائش بھی تیزی سے نیچے آ رہی ہے۔
اگر ہم ایک محتاط اور حقیقت پسندانہ تخمینہ لگائیں تو تصویر مزید واضح ہو جاتی ہے۔ بھارت کی موجودہ آبادی تقریباً 138 سے 140 کروڑ ہےجس میں لگ بھگ 8.6 فیصد لوگ 60 سال سے زائد عمر کے ہیں۔ چونکہ ہندو آبادی کا تناسب زیادہ ہے اس لیے ہندوؤں میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد کا حصہ تقریباً 10 فیصد یعنی 11 کروڑ بنتا ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح تقریباً 7 فیصد یعنی 1.4 کروڑ ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ آئندہ پچاس برسوں میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد کی اکثریت طبعی طور پر حیات نہیں رہے گی تو موجودہ 110 کروڑ ہندوؤں میں سے تقریباً 11 کروڑ افراد اس مدت میں دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ اس کے بعد آنے والی دو نسلیں، کم شرحِ پیدائش اور دیگر سماجی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، تقریباً 93 سے 95 کروڑ نئے ہندو پیدا کریں گی۔ اس طرح پچاس سال بعد ہندو آبادی کا مجموعی حجم تقریباً 192 سے 194 کروڑ بنتا ہے، نہ کہ کوئی ڈرامائی کمی یا اقلیت میں تبدیلی۔
اسی اصول کو مسلم آبادی پر لاگو کیا جائے تو نتیجہ اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ موجودہ 20 کروڑ مسلمانوں میں سے اگر 1.4 کروڑ 60 سال سے زائدالعمر افراد کو آئندہ پچاس برسوں میں نکال دیا جائے اور باقی آبادی میں متوقع اضافہ شامل کیا جائے تو مسلم آبادی تقریباً 41.6 سے 43.6 کروڑ تک پہنچتی ہے۔ یعنی سرکاری بھارتی اعداد و شمار اور عالمی آبادیاتی معیارات کی روشنی میں تجزیہ کرنے کے باوجود یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگلے پچاس برسوں میں ہندو اور مسلم آبادی کے درمیان عددی تفاوت ختم نہیں ہوگا، چہ جائیکہ مسلمان اکثریت میں آ جائیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود بھارت کے کئی ہندو آبادیاتی ماہرین اور سنجیدہ تجزیہ کار اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر بھارت اگلے سو یا دو سو سال بھی موجود رہا تو بھی یہ فرق ختم نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود ’’آبادیاتی خطرے‘‘ کا شور اس لیے مچایا جاتا ہے کہ ہندو اکثریتی ووٹ بینک کو خوف میں مبتلا رکھا جائے، مذہبی جذبات کو تندور بناکر سیاسی مفادات کی روٹیاں سینکی جائیں اور نا انصافی و عدم مساوات پر مبنی اصل سماجی و معاشی مسائل سے توجہ ہٹائی جائے۔ یوں یہ سوال کہ کیا اگلے پچاس برسوں میں بھارتی ہندو اقلیت میں آ جائیں گے، ایک حقیقی خطرے کے بجائے محض ایک مجرمانہ فریب اور سیاسی بیانیہ بن کر رہ جاتا ہے جس کا مقصد نہ آبادیاتی سچائی بیان کرنا ہے اور نہ قومی مفاد، بلکہ صرف اقتدار کی سیاست کو زندہ رکھنا ۔