
تحریر: محمد اقبال میر
انوارالحق کے دورِ حکومت کے منطقی انجام کو پہنچنے کے بعد آزاد جموں و کشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار کا موقع ملا ہے۔ وزیراعظم فیصل ممتاز راٹھور ہر گزرتے دن کے ساتھ متعدد منصوبوں کے اعلانات کر چکے ہیں، جن پر بظاہر فائل ورک جاری ہے۔ آزادکشمیر میں صوابدیدی عہدوں پر جیالوں کی ایڈجسٹمنٹ کا عمل بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے مظفرآباد ڈویژن سے دو سابق امیدوارانِ اسمبلی شوکت جاوید میر اور مبشر منیر اعوان کو وزیراعظم کی ٹیم میں شامل کر لیا ہے جس پر متعلقہ حلقوں میں پارٹی کارکنوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
آزاد جموں و کشمیر میں مقیم مہاجرینِ جموں و کشمیر کی صورتِ حال مگر اس سیاسی سرگرمی سے بالکل مختلف اور کہیں زیادہ کرب ناک ہے۔ اگرچہ اسمبلی میں ان کا کوئی الگ نمائندہ موجود نہیں، تاہم کئی حلقہ جات میں مہاجرین کا قابلِ ذکر ووٹ بینک ضرور موجود ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیپلز پارٹی کو بھی مہاجرینِ جموں و کشمیر نے ووٹ دیے ہوں گےمگر اس کے باوجود مہاجرین آج بھی اپنی شناخت، نمائندگی اور بنیادی حقوق کے لیے چشمِ انتظار ہیں۔

2003ء میں جنگ بندی معاہدے کے بعد آزاد جموں و کشمیر میں مقیم مہاجرین حکومتِ پاکستان کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آخر کب ان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا؟ دوسری جانب بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں باڑ لگا کر تحریکِ آزادی کو کچلنے کی سازشوں کا تسلسل جاری ہے۔ مقبوضہ وادی میں دہشت اور وحشت کا جو گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ تحریکِ آزادی کے بیس کیمپ سے وہ توانا اور واضح آواز سنائی نہیں دے رہی جو مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حوصلہ، اعتماد اور اطمینان فراہم کر سکے۔
آزاد جموں و کشمیر میں مقیم تقریباً 47 ہزار مہاجرین ایک طرف مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور آزادکشمیر کے حکمرانوں کی جانب دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان بے گھر مہاجرین کے مسائل کو بھی سنجیدگی سے حل کیا جائے گا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 35 برسوں سے ان کی اکثریت اپنی چھت سے محروم ہے۔ کوئی کرائے کے مکان میں رہنے پر مجبور ہے، تو کہیں ایک ہی گھر میں تین تین خاندان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 80 فیصد سے زائد مہاجرین بے یارو مددگار ہیں اور حکومتوں کی طفل تسلیوں پر ماتم کناں ہیں۔
ایک طرف مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو اپنا بھائی قرار دیا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب انہی بھائیوں کے نام پر ہجرت کرنے والے مہاجرین کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے۔ مہاجر کیمپوں کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، گزارہ الاؤنس میں اضافہ نہیں کیا جا رہا، جبکہ صحت اور تعلیم کے مسائل بھی سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ملازمتوں کا کوٹہ ختم ہونے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ مہاجرین کی امیدیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔
ایسے حالات میں حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور کم از کم مہاجرین کے رہائشی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔ ان کشمیری مہاجرین نے پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا ہے، انہیں مزید آزمائش میں نہ ڈالا جائے بلکہ ان کے مسائل کو سنجیدہ، عملی اور دیرپا حل کی جانب لے جایا جائے۔ مہاجرین کی جانب سے دیا گیا چارٹر آف ڈیمانڈ تقریباً دو برس سے فائلوں میں دب کر رہ گیا ہے۔ اگر فوری مکمل عملدرآمد ممکن نہیں تو کم از کم مرحلہ وار بنیادوں پر ایک ایک مسئلے کے حل کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔

یہ سوال حکومتوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں کہ مہاجرین کے صبر کا مزید امتحان کیوں لیا جا رہا ہے اور اس تاخیر کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے لیے بھارت جیسے طاقتور ملک کے سامنے سر اٹھایا۔ ایک طرف پیلٹ اور بلٹ تھیں اور دوسری طرف نہتے کشمیریوں کے ہاتھوں میں صرف پتھر۔ اس نابرابر جنگ میں گزشتہ 35 برسوں کے دوران 97 ہزار سے زائد نہتے کشمیری لقمۂ اجل بنے، جبکہ ہزاروں خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں آج بھی لوگوں کی زندگی اجیرن ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ کشمیری عوام پاکستان سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا رشتہ رکھتے ہیں۔ یہی عقیدت مہاجرین کو پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور کر گئی اور آج یہ لوگ ایک بار پھر امید بھری نگاہوں سے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان کے سوا کوئی اور مسیحا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاستِ جموں و کشمیر کے عوام اور پاکستانی عوام کا رشتہ اٹوٹ ہے، تاہم حکمرانوں کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے جانے پر سوالات ضرور جنم لے رہے ہیں۔
مہاجرین بارہا التجا کر رہے ہیں کہ ان کے مسائل کو الجھا ہوا یا ثانوی معاملہ سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ ان کے جائز اور بنیادی مسائل کو حل کیا جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مہاجرینِ جموں و کشمیر کے زخموں پر مرہم رکھا جائے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کب ہوگا؟ یہ بحث اپنی جگہ، مگر مہاجرین کے رہائشی مسائل کا حل حکومتوں کے لیے کوئی ناممکن ہدف نہیں۔ لہٰذا اب مزید تاخیر کے بغیر ان پر دستِ شفقت رکھا جائے اور ان کے دیرینہ مسائل کو حل کیا جائے۔