کشمیر 25
تحریر ۔۔ محمد شہباز

مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض بھارتی انتظامیہ کی طرف سے کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین میر واعظ عمر فاروق پر اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ، ایکس سابقہ (Twitter) پروفائل میں تبدیلیاں لانے کیلئے دباو ڈالا گیا ہے۔میر واعظ عمر فاروق پر حالیہ "دبائو” کا مطلب یہ ہے کہ انہیں قابض حکام کی طرف سے اپنے ایکس پروفائل سے "حریت چیئرمین” کا عہدہ ہٹانے کیلئے دبائو ڈالا گیا، کیونکہ ان کی قیادت میں عوامی ایکشن کمیٹی سمیت حریت کانفرنس کی تنظیمیں UAPA کے تحت ممنوعہ قرار دی جاچکی ہیں، جس کے بعد انہوں نے یہ ٹائیل ہٹا دیا تاکہ ان کا پلیٹ فارم بند نہ ہو اور وہ عوام تک رسائی جاری رکھ سکیں، یہ اقدام مقبوضہ جموں و کشمیر میں اظہار رائے کی محدود صورتحال یا گھٹن کی عکاسی کرتا ہے،میر واعظ نے خود اس بات کا اعتراف کیا اور بتایا کہ قابض حکام کی دھمکی تھی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان کا اکائونٹ بند کر دیا جائے گا، اس "ہوبسنز چوائس” (Hobson’s Choice) یعنی مجبوری کے تحت میر واعظ نے اپنے پروفائل سے "حریت چیئرمین” کا ٹائیل ہٹا دیا تاکہ وہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کا یہ واحد ذریعہ محفوظ رکھ سکیں۔
یہ واقعہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاسی آزادی اور اظہارِ رائے پر بھارتی حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور جبر کا ایک نیا پہلو ہے۔قابض انتظامیہ نے نہ صرف میر واعظ پر سوشل میڈیا پروفائل میں تبدیلیاں لانے کیلئے دباو ڈالا ہے بلکہ اس بات کی دھمکی بھی دی کہ اگر وہ ایسا نہیں کرسکے تو ان کا اکاونٹ بند کر دیا جائے گا۔میر واعظ عمر فاروق، جو کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سب سے اہم اور پرانے سیاسی اتحاد، کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین ہیں، نے اس دباو کے تحت اپنے ایکس پروفائل سے "چیئرمین حریت کانفرنس” کا لفظ ہٹا دیا ہے۔ یہ تبدیلی میر واعظ نے خود اپنی ایک پوسٹ میں شیئر کی اور کہا کہ بھارتی حکام کی جانب سے ان پر مسلسل دباو ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اپنے سوشل میڈیا پروفائل میں تبدیلیاں کریں۔ انہوں نے اپنی پوسٹ میں مزید کہا کہ انہیں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کا ایکس اکاونٹ بند کر دیا جائے گا۔میر واعظ عمر فاروق کا ایکس ہینڈل 2 لاکھ سے زائد فالوورز کا حامل ہے، اور یہ ان کی سیاسی سرگرمیوں اور مسئلہ کشمیر پر ان کے خیالات کا واحد اہم ذریعہ ہے۔ ان کا سوشل میڈیا اکاونٹ نہ صرف کشمیر ی عوام کیلئے ایک اہم رابطہ تھا، بلکہ عالمی سطح پر بھی اس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی اور خودارادیت کی تحریک کے بارے میں معلومات اور آگاہی فراہم کی جاتی تھی۔
بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد سے کشمیری سیاسی رہنمائوں اور عوام کے خلاف جبر میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔ اس کے نتیجے میں، حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند جماعتوں پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، اور ان کے دفاتر اور ہیڈکوارٹرز کو سیل کر دیا گیا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں قائم عوامی مجلس عمل سمیت تمام حریت اکائیوں پر پابندیوں کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے، اور انہیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔بھارتی حکومت کا یہ اقدام نہ صرف کشمیری عوام کی سیاسی آزادی پر ایک بڑا حملہ ہے بلکہ اس کے ذریعے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیرکو دبانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ مودی حکومت نے نہ صرف حریت رہنمائوں کو ہراساں کیا ہے بلکہ ان کے اظہارِ رائے اور سیاسی سرگرمیوں کو بھی محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔میر واعظ عمر فاروق کی جماعت سمیت آزادی پسند جماعتوں پر پابندی اور ان کے سوشل میڈیا پروفائل پر تبدیلی کا دبائو ایک اور واضح اشارہ ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعلیمی، سیاسی اور سماجی آزادیوں کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ حریت رہنمائوں اور کشمیری عوام کو دبانے کی یہ پالیسی ان کی آزادی اظہار رائے اور سیاسی جدو جہد کو غیر قانونی طور پر دبا رہی ہے۔ ایکس پر فالوورز رکھنے والے ایک بڑے کشمیری رہنما کیساتھ اس طرح کا سلوک ایک سنگین انتباہ ہے کہ کس طرح کشمیری سیاسی رہنمائوں کو جبر اور دھمکیوں کے ذریعے خاموش کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر جو موقف اختیار کر رہی ہے، اس میں وہ ہمیشہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جدو جہد آزادی کو دہشت گردی کیساتھ جوڑنے کی ناکام کوشش کرتی رہی ہے۔
بھارتی حکومت کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کیلئے مختلف حربے اور طریقے استعمال کر رہی ہے، جن میں سیاسی رہنماوں کی گرفتاریاں، ان کے دفاتر سیل کرنا، سوشل میڈیا کی سخت نگرانی، اور آزادی کے حق میں آواز اٹھانے والوں پر دبائو شامل ہیں۔ لیکن کشمیر ی عوام اور ان کے رہنمائوں نے ہمیشہ اپنے حقِ خودارادیت کیلئے آواز بلند کی ہے اور عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔بھارت کی جانب سے عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق خود ارادیت سے مسلسل انکار،میر واعظ عمر فاروق کا سوشل میڈیا پروفائل ان کے سیاسی نظریات، کشمیری عوام کے حقوق اور عالمی سطح پر تحریک آزادی کشمیرکیلئے کی جانے والی جدو جہد کا ایک مظہر تھا۔ اس پروفائل کے ذریعے نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات اور بھارتی ظلم و جبر کا پردہ فاش کیا جا رہا تھا بلکہ دنیا بھر میں تحریک آزادی کشمیر کی حمایت میں آواز اٹھائی جا رہی تھی۔ اس پروفائل کو بند کرنے کی دھمکی یا اس میں تبدیلی کا دبائو عالمی سطح پر بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔
میر واعظ عمر فاروق نے ہمیشہ اپنے موقف کو غیر متزلزل انداز میں پیش کیا ہے، اور سوشل میڈیا پروفائل کے ذریعے انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کی ہے۔ بھارت کی جانب سے ان پر دبائو ڈالنا اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کرنا کشمیری عوام کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ جہاں میرواعظ عمر فاروق پر اپنے ایکس ہینڈل سے حریت چیئرمین کا ٹائیل ہٹانے کیلئے دبائو ڈالا گیا،وہیں مودی حکومت نے کشمیری عوام کے خلاف اپنے جابرانہ اقدامات کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ میں مقیم کشمیری لابیسٹ اور معروف اسکالر ڈاکٹر غلام نبی فائی کی جائیداد ضبط کی ہے۔ یہ اقدام بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے افراد کو خاموش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی، جو طویل عرصے سے کشمیری عوام کے حقوق اور تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی فورمز پر فعال ہیں، نے ہمیشہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف آواز اٹھائی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر کے حل کی حمایت کی۔ ڈاکٹر فائی کو 2020 میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔ عدالت نے بڈگام کے کلکٹر کو ہدایت کی کہ وہ ڈاکٹر فائی کی جائیداد کو فوری طور پر ضبط کریں، جو کہ کھیوٹ نمبر 60 کے تحت ایک کنال اور دو مرلے کی زمین کے علاوہ دیگر علاقوں میں 11 مرلے اراضی پر مشتمل تھی۔ڈاکٹر غلام نبی فائی کا شمار ان کشمیریوں میں ہوتا ہے جنہوں نے عالمی سطح پر کشمیری عوام کے حقوق کیلئے مسلسل کوششیں کیں۔ وہ ہمیشہ بھارتی فوجیوں کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو بے نقاب کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم ہونے کے باوجود، ڈاکٹر فائی نے دنیا بھر میں کشمیری عوام کی حالت زار پر آواز اٹھائی۔ ان کی سرگرمیاں اقوام متحدہ کے فورمز پر مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے حوالے سے آج بھی جاری ہیں۔ڈاکٹر فائی کی جائیداد کی ضبطی کے اس اقدام کو عالمی سطح پر کشمیری عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بھارتی حکومت کا یہ اقدام صرف ڈاکٹر فائی تک محدود نہیں بلکہ ان تمام کشمیریوں کیلئے ایک پیغام ہے جو ناجائزبھارتی قبضے کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ اقدام ان افراد کو دبانے کیلئے کیا جا رہا ہے جو بھارتی حکومت کے غیر قانونی اقدامات اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ہیں۔ڈاکٹر فائی کی جائیداد ضبط کرنے کا معاملہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی انصاف پر مبنی جدوجہد کی ایک اور مثال ہے۔
بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کے حقوق کو کچلنے کیلئے کیے جانے والے اقدامات میں خوفناک اضافہ ہو رہا ہے، جن میں گرفتاریوں، ظالمانہ قوانین کا استعمال اور عالمی سطح پر کشمیری عوام کی آواز کو دبانا شامل ہیں۔ ڈاکٹر فائی کے خلاف یہ کاروائی ان افراد کے خلاف بھارت کی جانب سے کیے جانے والے انتقامی اقدامات کا حصہ ہیں جو کشمیری عوام کے حقوق کی حمایت اور عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر کے حل کی وکلالت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فائی کی جائیداد ضبط کرنے کی کارروائی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بھارت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرنے والوں کو صرف دبانے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ بھارتی حکومت کشمیری عوام کی آزادی کے حق کو تسلیم نہیں کرتی اور ہر اس شخص کو نشانہ بناتی ہے جو کشمیری عوام کی آزادی اور بھارتی قبضے کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں حقوق انسانی کی پامالیوں کی مسلسل رپورٹیں اور عالمی سطح پر ان کا تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی اداروں کی بے چینی ایک طرف، بھارتی حکومت کا یہ اقدام ایک اور سنگین مثال ہے کہ بھارت کشمیری عوام کے حقوق کے معاملے میں جابرانہ اقدامات کرنے سے گریز نہیں کرتا ہے۔ڈاکٹر غلام نبی فائی کی جائیداد ضبط کرنے کے بھارتی اقدام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارتی حکومت کشمیری عوام کی آزادی کی آواز کو دبانے اور اپنے غیر قانونی قبضے کو دوام بخشنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ایسے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو کمزور یا ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور اس کا جابرانہ رویہ عالمی سطح پر کشمیری عوام کے حق میں موثرردعمل کو ابھارنے کا باعث بنے گا۔یہ واقعات مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی سیاسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بھارت کا جبر، کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کی کوششیں اور مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر نظرانداز کرنے کی پالیسی ایک نئی حکمت عملی کی علامت بن چکی ہے۔ لیکن یہ کشمیری عوام کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتیں۔ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر مزید ا جاگر ہوگا اور کشمیری عوام اپنے حقِ خودارادیت کیلئے اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں،جس کیلئے لاکھوں کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔کیا ایسے حربوں سے لاکھوں قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی کشمیر اور اس قوم کو زیر کیا جاسکتا ہے ،جو گزشتہ78برسوں سے ایک ایسے ظالم اور جابر کے خلاف نبرد آزما ہیں ،جس سے نہ اخلاقی اقدار کی کوئی پرواہ ہے ،نہ ہی تمیز،تہذیب اور شاستگی کی ہوا لگی ہے۔