احمد فرہاد میرا پرانا دوست ہے۔ فرہاد سے میری شناسائی 2007 میں ہوئی۔۔میں اُس وقت ایک روزنامہ اخبار میں بطور ایڈیٹوریل ایڈیٹر کام کرتا تھا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت پر میں نے اداریے میں اُس کا یہ شعر لکھا جو میری فرہاد سے تعارف کی پہلی بنیاد بنا۔
جو میرے ساتھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے
اب اس کے بعد بھلا کوئی کیا چراغ بنے
اسی عرصے میں شاعرسید عارف(مرحوم) کے گھر فرہاد سے پہلی ملاقات ہوئی جس میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے شاعر اور پبلشر ارشد ملک بھی موجود تھے۔ بعد میں فرہاد ایک طویل عرصہ میرا روم میٹ بھی رہا۔اُس کے بعد ہم نے ایک سال تک کیپٹل ٹی وی میں اکٹھے کام کیا۔ مجھے پرنٹ میڈیا اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیچنگ کے میدان سے نکال کر الیکٹرانک میڈیا میں دھکا دینے والا بھی یہی فرہاد تھا۔ اُس کے بعد وہ بہت عرصہ لاہور میں مقیم رہا۔ لیکن جب بھی راولپنڈی یا اسلام آباد آتا تو ملاقات ضرور ہوتی اور گھنٹوں گفتگو ہوتی۔۔۔فرہاد کی جو غزل آج کل سب سے زیادہ معروف ہے ۔۔۔اسے اٹھا لو۔۔اس سے پہلے ’’کافر ہوں سرپھرا ہوں مجھے مار دیجیے‘‘ شعر و ادب کا ذوق رکھنے والے عام قارئین میں اُس کی پہچان بنی۔۔لیکن اس غزل کا پہلا سامع ہونے کا اعزاز بھی مجھے ملا۔وہ یوں کہ فرہاد کو جس وقت اس غزل کی آمد ہوئی ہم دونوں ایک ہی موٹرسائیکل پر اپنے فلیٹ سے دفتر آرہے تھے۔ وہ ایک مصرعہ کہتا اور مجھے سناتا اور میں عش عش کر اٹھتا۔۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دفتر پہنچتے پہنچتے اس غزل کے تقریباً چار شعر ہوچکے تھے۔
احمد فرہاد ایک انتہائی حساس دل رکھنے والا شخص ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص کے قتل کی خبر ملی تو میں نے کہہ دیا کہ اگر یہ شخص زندہ رہتا تو مذہبی حوالے سے بہت منافرت پھیلاتا۔۔اس کی موت نے کئی جانیں بچا لیں۔۔اس پر فرہاد مجھ سے سخت خفا ہوگیا کہ تم ایک شاعر ہو کر کسی انسان کے قتل کی حمایت کس طرح کرسکتے ہو۔۔اسی حساس دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر تو وہ کہتا تھا
کافر ہوں سر پھرا ہوں مجھے مار دیجیے
میں سوچنے لگا ہوں مجھے مار دیجیے
جب ملک میں اٹھائی گیروں نے لوگوں کو اٹھانا شروع کردیا تو فرہاد کا حساس دل ایک بار پھر تڑپ اٹھا۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنی اس سزا سے آگاہ نہیں تھا جو اُسے آج مل رہی ہے۔۔ہم دوست اکثر اُسے سمجھاتے تھے کہ اپنے بچوں کا سوچو۔۔اپنی جان کو اس عذاب میں مت ڈالو۔۔لیکن وہ بے ادب وہ بدتمیز وہ ناہنجار وہ عاقبت نا اندیش ہمیشہ اپنے اس شعر کی عملی تصویر بنا رہا اور بالاآخر اس بے ادب کو اٹھا لیا گیا
وہ بے ادب اس سے پہلے جن کو اُٹھا لیا تھا
یہ ان کے بارے میں پوچھتا ہے اِسے اُٹھا لو
…………………………
اکرام احساس اپنے تخلص کی طرح حساس رائٹر ہیں۔ سمندر کو کوزے میں کیسے بند کیا جاتا ہے، اکرام کا قلم یہ فن خوب جانتا ہے، سما ٹی وی کے ساتھ وابستہ یہ اسکرپٹ رائٹر اور قلم کار عصر حاضر کے ادب کے افق پر طلوع ہونے والے نئے سورج ہے۔