
ایران میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایران کے صدر اور وزیر خارجہ سمیت دیگر کی شہادت پر پورا عالم اسلام غم زدہ ہے ۔ یہ نہ صرف ایران بلکہ پورے عالم اسلام کیلئے دھچکا ہے کیونکہ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان حالات کشیدہ ہے ۔ ایسے میں اس حادثے کے محرکات کے حوالے سے ہر /ذی شعور کے زہن میں سوال ضرورت اٹھتا ہے کہ آیا یہ محض اتفاق ہے یا ان حادثات کے پیچھے عالمی سازش ہے؟

افسوس ناک حادثے میں مسلم ملک آزربائیجان کا کتنا ہاتھ ہے اوردیکھنا ہوگا کہ آزربائیجان کے اسرائیل کیساتھ اس کے کیسے تعلقات ہیں؟
آزربائیجان کے صدر سے ملاقات کے محض تین دن بعد سلوواکیہ کے وزیر اعظم فیکو پر قاتلانہ حملہ میں مسلح افراد نے گولی مار دی اسی طرح ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر الہام علیوف سے ملاقات کے چند گھنٹے بعد گر کر تباہ ہو گیا۔
الہام علییف اور آذربائیجان کے اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ علیئیف پڑوسی ملک آرمینیا کے خلاف اپنی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے اسرائیلی کمپنیوں سے بھاری مقدار میں ہتھیار خریدتا ہے جسے روس کی حمایت حاصل ہے۔

بیل دوسو بارہ ایس انتہائی قابل اعتماد طیارے ہیں۔ یہ خاص ہیلی کاپٹر 1971 میں سروس میں لایا گیا تھا، تاہم ان ہیلی کاپٹرز کے ایئر فریم کی کوئی میعاد ختم نہیں ہوتی۔ وہ تب تک اڑ سکتے ہیں جب تک کہ ان کی مناسب دیکھ بھال کی جائے۔
آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ ایرانی صدر کوئی ایسا طیارہ نہیں اڑائیں گے جو ناکارہ ہو۔ ان کا ہیلی کاپٹر تین ہیلی کاپٹروں کے قافلے کا حصہ تھا۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد یہ پہلا غیر معمولی واقعہ ہے جس میں ایران کے چوٹی کی شخصیات جان سے گئی،حال ہی میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی موت کی خبر نے جہاں دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ، وہیں ایرانی شہری بھی صدر کے ہیلی کاپٹر حادثے پر شدید افسردگی کا شکار ہیں۔تاہم اس سب میں سوشل میڈیا پر آزربائیجان کے صدر الحام علیو کا بیان توجہ سمیٹ رہا ہے۔جہاں انہوں نے ایرانی صدر کے ساتھ پیش آنے والے حادثے سے قبل کچھ ایسا کہا ہے جو کہ سوشل میڈیا صارفین کو حیران کر رہا ہے۔
آزربائیجان کے صدر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ایران اور آزربائیجان کے درمیان غلط فہمی پیدا نہیں کر سکتا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان دوستی تاریخی ہے اور دونوں ممالک کی عوام ایک ہی جگہ کئی صدیوں سے رہ رہی ہیں اور آج یہ تعلق دونوں ممالک کے درمیان مزید اونچا اور گہرا ہو گیا ہے۔
آزربائیجان کے اس بیان پر جہاں ماہرین اسے پالیسی بیان کے طور پر دیکھ رہے ہیں، وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ اسے اتفاق اور مشکوک بھی بتا رہے ہیں۔اگرچہ سوشل میڈیا صارفین بھی آزربائیجان کے اس بیان کی جانب متوجہ ہو چکے ہیں، تاہم اس حادثے کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی ۔