تم جب عمر رسیدہ ہو جاؤگی۔

0

ایک عاشق کا اپنے محبوبہ کے نام نظم

"جب تم عمر رسیدہ ہو جاؤ

یہ ریشم کے لَچھوں جیسے بال اِس طرح چمکنے لگیں جیسے چاندی کے تار۔

یہ حسِین اور نشیلی آنکھیں دھندلی پڑ جائیں ۔

اِس چاند سی پیشانی پر وقت جّھرّیاں ڈال دے،

تب سوچنا کہ تمہاری اِن آنکھوں میں کتنی ملائمت تھی، کتنا سحر تھا۔

سنہرے بالوں کی پریشان لَٹیں تمہارے دمکتے، چمکتے ہوئے چہرے پر کتنی اچھی لگتی تھیں۔

تمہاری مسکراہٹ کتنی دل فریب تھی۔

تم کتنی خوبصورت تھی۔

تم فرشتوں کا تَخیُّل تھی، حوروں کا خواب تھی ۔

اُس وقت ایک بدنصیب کو بھی یاد کرنا جو تمہارا نام لے لے کر جیتا تھا۔

جو تمہارا پرستار تھا۔

جس نے اُس حسِین مجسمے کی حسِین روح کو چاہا۔

کتنے خوش گوار تھے وہ لمحے جو اُس نے تمہارے ساتھ گزارے۔

پھر یاد کرنا کہ محبت کتنی حسِین چیز ہے، جو اُفق کے اِس پار طلوع ہوئی جس سے زمین و آسمان جگمگا اُٹھے اور پھر اُس پار چلی گئی اور تاروں کے کسی جھرمٹ میں اپنا منہ چھپا لیا !!!!”

(انگریزی نظم کا آزاد ترجمہ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.