ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا۔۔۔!!

0

معراج زرگر… سری نگر 

بھارت کی آل ٹائم سُپر ہِٹ فلم میں دھرم جی کا مشہور ڈائلاگ سب کو از بر یاد ہوگا۔ ” بسنتی۔۔۔۔!! ان کتوں کے سامنے مت ناچنا۔۔!!” ۔ مگر بسنتی بے چاری کاہے کو نہ ناچتی۔ یار کی خاطر ایسا ناچی کہ بس۔ کالیا, سانبھا سب کے سب دیدے پھاڑ پھاڑ کر بسنتی کو ناچتا دیکھ لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ گبرکے سامنے بسنتی کو ناچنا ہی پڑا۔

"جب تک ہے جان۔۔۔جانِ جہاں۔۔۔میں ناچوں گی۔۔”

اب بڑی بحث چھڑی ہے کہ ناچنا کوئی مرغوب چیز نہیں۔ بھئی یہ تو حیلے ہوئے نا۔ جب اُس رقاصہ نے خود کو بڑا مشہور کیا تھا کہ ایسا ناچتی ہے, ویسا ناچتی ہے۔ تو ایک دن شہر میں بڑا اعلان ہوا کہ ایک مشہور رقاصہ کا آج ناچ ہے۔ اور جب بن سنور کر ناچنے لگی تو ناچنا ہی نہ آیا۔ تو کہنے لگی کہ آنگن ہی ٹیڑھا ہے۔ جن کو وقت کی تھاپ پہ ناچنا نہیں آتا تو وہ ایسے ہی بہانے بناتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ناچنا کوئی پسندیدہ فعل نہیں۔ یعنی ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔

ہندو کتھا میں درج ہے کہ کرشن جی نے بھی رادھا کو ناچنے کا کہا تھا۔ مگر رادھا نہ مانی۔ کرشن جی نے بڑا اصرار کیا مگر رادھا نہ مانی۔ کرشن جی نے بھی ضد نہ چھوڑی۔ جب رادھا کو لگا کہ کرشن جی نہیں مانیں گے تو شرط لگائی کہ نو من تیل کے چراغ جلاؤ پھر ناچوں گی۔ کرشن جی نے مجبوراً کہا کہ,

"نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی”

بُھلے شاہ سے جب اس کے مرشد شاہ عنایت قادری ؒ کسی وجہ سے روٹھ گئے تو اپنے شیخ کے فراق میں بھُلے شاہ بڑے عرصے تک جلے تڑپے۔ ایک دن ایسے سوجھی کہ مرشد کو منا کے ہی دم لیا۔ روایات کے مطابق جمعہ کا دن تھا۔ حضرت بابابلھے شاہؒ نے غسل کیا، نماز تہجد ادا کی، اللہ کے حضور منظوری کے لیے گڑگڑا کے دعا کی۔ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر اپنا سابقہ لباس اتار کر مغنیہ کا لباس پہنا۔ پاؤں میں گھنگرو باندھے، چہرے پر نقاب ڈالا اور مرشد کی خدمت میں حاضر ہو گئے، جیسے ہی محفل سماع منعقدہوئی، آپؒ نے ایسا پُرسوز کلام سنایا کہ تمام حاضرین محفل وجد میں آگئے، خود گانے والے اور سازندے حیران رہ گئے۔ تب آپؒ نے یہ کافی گانا شرو ع کر دی۔

"تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا”

جب آپ کافی گا چکے تو حضرت شاہ عنایت قادریؒ فرمایا ’’تو بلھا ہے؟‘‘حضرت بابابلھے شاہؒ کی آنکھوں سے آنسووں کی لڑیاں گرنے لگیں ، عرض کیا’’ حضور بلھا نہیں بھولا ہوں‘‘ مرشد اٹھے اور انھیں گلے سے لگا لیا۔

اور پھر رقص درویشاں کا کیا ہی کہنا۔ جب ساری کائنات رقص میں ہے تو پھر کوئی بندہء ناچیز و عاجز کیوں نہ ناچے۔ سارے ستارے اور سیارے اپنے اپنے مدار میں ناچ رہے ہیں۔ پھر کیا آسمان سر پہ گرا کہ ہم نے تھوڈا ٹھُمکا مارا تو سارا جہاں ہم سے خفا۔

رقص میں ہے جہاں کا جہاں آج کل

ماند ہے گردشِ آسماں آج کل

دل اکیلا ہی نہیں رقص میں جاں رقص میں ہے

ہم اگر رقص میں ہیں سارا جہاں رقص میں ہے

حیرت آئنہ تنہا نہ یہاں رقص میں ہے

جانے کیا دیکھ لیا دل نے کہ جاں رقص میں ہے

مختصر یہ کہ عالم محو رقص ہے۔ کوئی اپنے الہہ کے گرد محو رقص ہے تو کوئی درہم و دینار کے گرد۔ کوئی اپنی محبوبہ کے فراق میں رقصاں تو کوئی غمِ دنیا کے چکروں میں ناچ رہا ہے۔ ناچ تو سب رہے۔ اور جب یہ معلوم ہو کہ ناچنے کے پیسے ملیں گے تو کون ناچنا نہ چاہے۔ وہ کیا ہی خوب گانا ہے کہ "ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا”

زہے رندے کہ پامالش کنم صد پارسائی را

خوشا تقویٰ کہ من با جبہ و دستار می رقصم

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جاں بازاں

بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم

Leave A Reply

Your email address will not be published.