
نا امیدی کفر ہے موجودہ کربناک حالات میں جب سب کچھ ہم سے چھن چکا ہے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہم انشاءاللہ اللہ کے وعدے کے مطابق اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں ضروری ہے کہ ہم پورے کے پورے دین میں داخل ہو جائیں اور تحقیق کر کے عمل کریں 40 لاکھ ابادی پر مشتمل یہودی ایک چھوٹی سی ریاست کا کیسے عالمی سطح پر تقریبا تمام شعبوں معیشت میڈیا سیاست پہ راج ہے ماضی میں کبھی اریا روم مسلمانوں کا دبدبہ تھا وہ ختم ہو چکا ہے اس کی بڑی وجہ ہے یہودی جنم سے ہی تربیت یافتہ ہوتا ہے
یہودی جنم سے نہیں بلکہ جب وہ پیٹ میں ہوتا ہے وہاں سے اس کا خیال رکھا جاتا ہے حاملہ عورت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ہر قسم کے انتشار سے دور رکھا جاتا ہے مطالعہ خصوصا میتھمیٹکس میں مشغول رکھا جاتا ہے جس کا اثر اس کے بچے پہ پڑتا ہے ان کا تعلیمی نظام دنیا سے مختلف ہے الگ الگ شعبوں میں ریسرچ کر کے وہ میٹرک کی سرٹیفیکیٹ حاصل کرتے ہیں, سکریٹ بنانے میں کھربو ڈالر بنانے والے یہودی سگریٹ پینے سے اکثر پرہیز کرتے ہیں گھر میں کوئی سگریٹ نہیں پی سکتا یہودی بچوں کے پاس موبائل نہیں بلکہ جدید تقاضوں کے مطابق تحقیق اور علم حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں
موضوع کو مختصر کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اس سبق اموز کہانی سے اپ سے اجازت چاہتا ہوں لندن میں ڈاکٹر اقبال ایک پارک میں بچوں کو کھیل کود میں مصروف دیکھتا ہے ان سے الگ ایک بچہ کتاب پڑھ رہا تھا ڈاکٹر اقبال کو تجسس ہوا کہ میں دیکھوں یہ بچہ کیوں نہیں کھیل رہا بچے کے پاس گیا اس سے کہا کیوں نہیں کھیل رہے ہو بچے نے کہا میں اگر اج کھیلوں ہم یہودیوں دنیا میں بہت کم ہیں ہماری قوم کا کیا ہوگا اور ہم میں سے اکثر اور ہمارے بچے جن کے ہاتھوں میں 24 گھنٹے موبائل ہوتے ہیں ہم سوچتے ہیں ک کیسے حرام کی کمائی سے عیش عشرت کریں, اکثر بے ایمانی چاپلوسی چالاکی سے مقام بناتے ہیں صلاحیت کی قدر ہی نہیں, ان صفوں میں بھی جن کی بنیاد انصاف ہے اسرائیل میں ہر بچہ عسکری ٹرینڈ ہے تین سال اس کو فوج میں سروس دینی پڑتی ہے تیر چلانا سیکھتے ہیں اور ہم دیوان خانوں میں عسکریت پر تنقید کر کے اسرائیل اور دوسرے قوتوں کو کوستے ہیں انہوں نے علم تحقیق عمل اور جدید تقاضوں کے مطابق اپنی عسکریت کو پروان چڑھا کر یہ مقام پایا ہے جو ہمارا دینی فریضہ ہے اسرائیل کی یونیورسٹیوں کا عالمی سطح پہ اعلی مقام ہے نوبل پرائز جیتنے والوں میں یہودیوں کی اکثریت ہے اور ہماری اکثر یونیورسٹیوں میں تحقیق کے برعکس ناچ گانے کو جدید ریسورج سمجھا جاتا ہے,
ہم درمیان میں لٹک چکے ہیں نہ ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں اور نہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی پالیسیوں کو اختیار کرتے ہیں افغان طالبان کی طرح پیاز کے ساتھ روٹی کھانے کو تیار نہیں قران و سنت پہ مکمل پابند ہو کے طالبان کی طرح دنیا کو زیر کر سکتے ہیں نہ ہم نہم طالبان کی روایات کو اور نہ اسرائیل کہ تعلیمی سیاسی سماجی پالیسی پہ تحقیق اور عمل کرنے کے لیے تیار بس اسرائیل غزہ میں قتل عام کرے ہمارے گھروں میں گھس کر مارے. جسم کا ایک انگ کا دعوی کرنے والے صرف مذمتی بیان دیتے ہیں غریب عوام کا خون چوس کر اور لوٹ مار کر کے اپنی جائیدادیں اور اپنی نسل کا مستقبل سنوارنے میں لگے ہیں علم اور تحقیق کی طرف دھیان نہ ہونے کے برابر خدانخواستہ ہمارا حال برا سے برا ہو سکتا ہے جاتے جاتے یہ بھی عرض کروں عالی شان کوٹھیوں بڑی بڑی گاڑیوں دیوان خانوں میں عیش سے بیٹھ کر پلیٹ میں ازادی مل سکتی ہے نہ قائم رکھ سکتے ہیں عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم یا اللہ ہماری ہدایت فرما امین دعا گو