
فسلسین پر ظلم لیکن عالمی برادری خاموش کیوں
تحریر: مناہل ايمان
فلسطین… ایک ایسا نام جو آج بھی دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے، لیکن افسوس کہ یہ جھنجھوڑنا بھی اب محض رسمی سا رہ گیا ہے۔ غزہ کی گلیوں میں معصوم بچوں کی چیخیں، ماؤں کے آنسو، اور شہداء کے جنازے چیخ چیخ کر دنیا کو بیدار کرنا چاہتے ہیں، مگر عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی نیند سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔
کیا کراچی میں بار بار “زلزلے”آنا سونامی کا پیش خیمہ ہیں ؟
ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا، لیکن فلسطینی عوام آج بھی اپنی زمین، اپنی شناخت، اور اپنے جینے کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل ہے جو طاقت، اسلحے اور حمایت کا مالک ہے، اور دوسری طرف نہتے فلسطینی، جن کے پاس صرف صبر، استقلال اور قربانیوں کی لازوال داستانیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور امن کے ٹھیکیدار کہاں ہیں؟ وہ لوگ جو ایک انسان کے مرنے پر آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں، آج جب پورے خاندان مٹ رہے ہیں، وہ خاموش کیوں ہیں؟ یہ خاموشی کسی جرم سے کم نہیں۔
عالمی ضمیر کی یہ بے حسی صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ مجرمانہ ہے۔ جب مظلوم اور ظالم کو ایک ہی ترازو میں تولا جاتا ہے تو انصاف کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ فلسطینیوں کو حقِ خود ارادیت سے محروم رکھنا، ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنا، اور دنیا کی آنکھیں بند رہنا… یہ سب تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس پر آنے والی نسلیں سوال اٹھائیں گی۔
اوآئی سی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ ، مسئلہ کشمیر اور فلسطین کےحل کیلئے لائحہ عمل طے کیا جائے ،حافظ نعیم الرحمان
اسلامی دنیا کی بے حسی بھی کم افسوسناک نہیں۔ اگر امت مسلمہ متحد ہوتی، اگر صرف سفارتی، اقتصادی اور میڈیا کے محاذ پر فلسطین کے لیے مضبوط قدم اٹھائے جاتے، تو شاید حالات مختلف ہوتے۔ مگر یہاں بھی مفادات، خوف، اور نفاق نے زبانیں بند کر رکھی ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ یہ خاموشی توڑی جائے۔ فلسطین صرف ایک سرزمین نہیں، یہ ایک آزمائش ہے… انسانیت کے ضمیر کی، عالمِ اسلام کی غیرت کی، اور دنیا کے انصاف کے معیار کی۔ اگر آج بھی ہم خاموش رہے تو کل ہم بھی اس بے حسی کا حصہ سمجھے جائیں گے۔