
تحریر: خلیق الرحمٰن سیفی ایڈووکیٹ
"The Peaceful Assembly and Public Order Ordinance, 2024”.
آزاد جموں کشمیر میں مذکورہ بالا آرڈیننس جو کہ مورخہ 30 اکتوبر 2024 کو پاس ہوا، کے خلاف آزاد جموں کشمیر کی عوام "جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی” کے پلیٹ فارم سے سراپا احتجاج ہے اور مذکورہ آرڈیننس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سینٹ آف پاکستان نے مورخہ 2 ستمبر 2024 کو
"The Peaceful Assembly and Public Order Act, 2024”.
پاس کیا جو صرف اسلام آباد کی حد تک ہے، اس ایکٹ کے سیکشن 10 ہیں اور آزاد جموں کشمیر کے صدر نے بھی من و عن اسی ایکٹ کو کاپی کر کے بالکل اسی نام سے آرڈیننس کی صورت میں شائع کروا دیا۔ اور تمام کے تمام سیکشن، تعریفات، طریقہ کار، فورم، سزا اور الفاظ کی من و عن نقل کیے ہیں۔ دراصل آزاد جموں کشمیر میں بھی یہ آرڈینس اسی خاص مقصد کیلئے پاس کروایا جس مقصد کیلئے اسلام آباد میں ایکٹ نافذ کیا گیا۔
چونکہ دونوں (پاکستانی ایکٹ اور آزاد جموں کشمیر آرڈیننس) کے الفاظ اور سب کچھ یکساں ہیں تو اس پر سرسری بحث کرتے ہیں کہ یہ آرڈیننس ہے کیا اور اس میں کیا قدغن ایسی لگائی گئی جو کہ عوامی حقوق کے مغائر ہے۔
یاد رہے کہ مذکورہ آرڈیننس کو آزاد جموں کشمیر سپریم کورٹ نے معطل کر دیا ہوا ہے اور فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے لہٰذا اس کی حساسیت اور فیصلہ کی بابت کوئی بات کرنا مناسب نہیں۔
مذکورہ آرڈیننس 2024 کے سیکشن 3 کے مطابق کسی بھی آرگنائزیشن کو پرامن احتجاج کرنے سے ایک ہفتہ پہلے اپنے آرگنائر کی جانب سے متعلقہ ضلعی مجسٹریٹ/ ڈپٹی کمشنر کو تحریری درخواست دینا ہو گی جس میں جلسہ/جلوس یا احتجاج کی تفصیل فراہم کرنا ہو گی اور سیکشن 4 کے تحت متعلقہ ڈپٹی کمشنر/ضلعی مجسٹریٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رپورٹ طلب کرنے کے بعد اجازت دے گا یا اجازت دینے سے انکار کر دے گا۔ اور سیکشن 5 کے تحت ضلعی مجسٹریٹ/ڈپٹی کمشنر مذکورہ اجلاس، جلوس، احتجاج یا ریلی پر پابندی عائد کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔
اگر ضلعی مجسٹریٹ اجازت نامہ کی درخواست مسترد کر دے یا اسمبلی/احتجاج پر پابندی عائد کر دے تو آرڈیننس کے سیکشن 6 کے تحت 15 ایام کے اندر اس فیصلے کے خلاف اپیل کمشنر کے پاس دائر کی جائے گی اور متعلقہ کمشنر 15 ایام کے اندر اپیل منظور یا خارج کرے گا۔ اپیل خارج ہونے کی صورت میں کمشنر کے فیصلہ کے خلاف سیکرٹری داخلہ کے پاس Revision/نگرانی دائر کرے گا اور مذکورہ سیکرٹری داخلہ بھی ضلعی مجسٹریٹ، کمشنر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رپورٹ طلب کرنے کے بعد 15 دن میں فیصلہ کرے گا۔
آرڈیننس 2024 کے سیکشن 7 کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا ایس ایچ او پولیس احتجاج/جلوس/جلسہ وغیرہ کی نگرانی کرے گا اور امن عامہ میں حائل ہونے والے شرکاء کو گرفتار کرنے کا مجاز ہو گا۔ سیکشن 8 کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ درجہ اول کو متعلقہ جرم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ کی سماعت کا اختیار ہو گا اور مجسٹریٹ ملزم کو 3 سال کی سزا یا جرمانہ یا دونوں عائد کرے گا۔ اور سزا یافتہ ملزم دوبارہ کسی احتجاج کے دوران اسی جرم میں گرفتار ہوا تو اس ملزم کو 7 سال کی سزا دینجائے گی۔
یہ ہے وہ آرڈیننس کہ جس کے خلاف عوام سراپہ احتجاج ہے کیونکہ اس آرڈیننس کی وجہ سے عوام سے ان کی آزادی اظہار رائے، ظلم کے خلاف احتجاج اور اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے جیسے بنیادی آئینی حقوق سلب کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد میں نافذ العمل ایکٹ اور آزاد جموں کشمیر میں نافذ کیے جانے والے آرڈیننس میں صرف ایک لفظ (ایکٹ اور آرڈیننس) کا فرق ہے باقی تمام تفصیلات یکساں ہیں۔
لیکن عوام کو ایک بات ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ یہ آرڈیننس عوام کے توجہ کو منتشر کر کے ایک اور ایکٹ پاس کرنے کا راستہ اپنانے کی سازش ہے۔ آزاد جموں کشمیر اسمبلی کے آمدہ اجلاس میں وہ ایکٹ
Azad Jammu & Kashmir Investment Act, 2024
پیش کیا جا رہا ہے جس کے تحت آزاد جموں کشمیر کے تمام سیاحتی مقامات، اہم مقامات اور کاروباری مراکز کو غیر ریاستی کاروباری لوگوں کو لیز پر دینا شامل ہو گا۔ حکومت نے انتہائی چالاکی سے Investment Act سے توجہ ہٹانے کیلئے آرڈیننس کو پہلے منظر عام پہ لا کر عوام کے توجہ اس جانب کی اور اس دورانیے میں شنید ہے کہ صدارتی آرڈینس کو منسوخ کر کے عوام کا مطالبہ مان لے گی اور اپنے اصل مقصد میں کامیاب ہو جائے گی۔
ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ ریاستی تشخص اور ریاستی املاک کی حفاظت کیلئے اقدام کرنا ہوں گے اور اشرافیہ کے اقدام پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔