
اسلام آباد ۔۔۔
کیسزکی کاز لسٹ تبدیل ہوئی یا احکامات نظرانداز ہوئے ۔۔ سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس کے سماعت سے پہلے عجیب صورتحال پیدا ہوگئی ۔۔ کیس کی سماعت کیلئے ججز اور وکلا پہنچے تو پتہ چلا کہ آج تو کیس سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں ۔۔۔
وکیل نے کہا کراچی سے صرف اسی کیس کیلئے آیا ہوں لیکن کاز لسٹ جاری نہیں ہوئی۔جبکہ عدالت نے آج کیس سماعت کیلئے مقرر کیا تھا۔ عدالت نے وجوہات کیلئے ایڈیشنل رجسٹرار کو طلب کیا جن کی جگہ ڈپٹی رجسٹرار پیش ہوئے۔۔عدالتی استفسار پر ڈپٹی رجسٹرار نے بتایا کہ ججز کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ترمیم سے متعلقہ کیس 27 جنوری کو آئینی بنچ میں لگے گا۔۔۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں خود بھی کمیٹی کا رکن ہوں مجھے تو کچھ علم نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جوڈیشل آرڈر کو انتظامی کمیٹی کیسے نظرانداز کر سکتی ہے؟ ہماری پورے ہفتے کی کاز لسٹ کیوں تبدیل کر دی گئی؟ عدالت نے ججز کمیٹی کا پاس کردہ آرڈر اور مینٹنگ منٹس کی تفصیلات طلب کیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا اب ایک ریسرچ آفیسر ہمیں بتائے کہ کون سا کیس کہاں مقرر ہوگا؟چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت یہ بینچ آئینی بینچ میں جائے گا یہ بحث ہماری عدالت میں بھی ہو سکتی تھی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کمیٹی کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ کیس ہی نہ لگائے۔۔۔جسٹس عائشہ ملک بولیں!مجھے سمجھ نہیں آ رہی دو یا تین ذہنوں کے مقابلے میں ایک چیف جسٹس کیسے بہتر ہو سکتا ہے۔۔۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے عدالتی حکم ہونے کے باوجود ایڈیشنل رجسٹرار کو کاز لسٹ سے کیس ہٹانے پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔۔۔ قرار دیا کہ 16 جنوری کے جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں عدالتی حکم کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے۔عدالت نے کیس کل تک ملتوی کردیا۔۔