
تحریر:: مجاہد ذاکراللہ
دنیابھر کے مسلمانوں نے دو مراحل میں عید الفطر مناٸی۔ اس خوشی کو اس طرح منانا بھی اپنی جگہ پیام زندگی ہے_ لیکن جب یہ عمل ایک مملکت کی سرحد کے اندر پروان چڑھے تو پھر یہ پیام زیست نہیں بلکہ موت سے کچھ کم نہیں۔
عالمی سطح پر رویت ہلال کی بنا پر دو مراحل میں عید منانا اختلاف و افتراق ہے نہ انتشار۔ یہ دوئی پسندی اگر عید کی حد تک ہوتی تو یقینا پیام زیست تھا مگر بد نصیبی یہ ہے کہ جہاں امت کو یکسوئی یکجہتی اور یک رنگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہاں امت دو حصوں اور دو خیموں میں بٹ چکی ہے ایک وہ خیمہ جو بہادر دلیروں اور سربکف لوگوں کا مسکن ہے تو دوسرا خیمہ بزدلوں نامردوں بے غیرتوں، بے حمیت اور زرخریدوں سے اٹا ہے پڑا ہے_ پہلا گروہ اگرچہ ایمانی قوت سے مالا مال ہے تا ہم ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں ٹوٹی پھوٹی بندوقوں کے سوا کچھ بھی نہیں- یہ گروہ اس امت کی تن میں روح کی حیثیت رکھتا ہے یہ آہ و فغاں نہیں کرتا بلکہ دشمن کے صفوں میں محشر کا سماں بپا کرتا ہے یہ کسی کو اپنا درد و الم سنانے کا قائل نہیں بلکہ اپنے زخموں کا خود ہی مداوا کرتے ہیں یہ پھٹے پرانے لباس زیب تن کرتے ہیں_ سرخ لباس پہن کر ابدی نیند سوتے ہیں یہ خواہشوں کی پوجا کرنے والا نہیں یہ نفس کو لگام دینے والا گروہ ہے ان کی دیوار نفس پہ کبھی دراڑ پیدا نہیں ہوتی یہ اپنا شان ماضی سروں پہ سجا کر پرواز جاری رکھنے والا ہے چاہے راستے میں سمندر ائے یا پہاڑ ان کے جنوں کا ہوش سے بھی تعلق ہے اسی لیے یہ کبھی اپنا تو کبھی ان کا گریباں پھاڑ آتے ہیں_ ان کے سر ان کی گردنوں سے جدا ہو کر بھی بول رہے ہوتے ہیں_ یہ خاموشی اختیار کرتے ہیں مگر شجر حجر ان کی زبان بن کر بولتے ہیں _ ارض فلسطین سے ارض کشمیر تک شیخ احمد یاسین اور سید علی گیلانی کے اس لشکر کا ہر فردصیہونی اور بھارتی بربریت اور چنگیزیت کا نشانہ ہے۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی کی تازہ کاروائی میں معروف حریت راہنما،جدوجہد آزادی کے سرخیل محمد فاروق رحمانی کی زمین و جاٸید أد ضبط کرلی ہے-یہ ایک حریت راہنما کی بات نہیں اس سے پہلے حزب المجاہدین کے ناٸب امیر سیف اللہ خالد کو بھی اسی بربریت کا سامنا کرنا پڑا۔کشمیر سے لے کر فلسطین تک بے حمیت مسلم حکمرانوں کے حوصلہ شکن رویے کے باوجود یہ قافلہ حق امت مسلمہ کا بھرم قاٸم رکھے ہوٸے ہے۔
دوسرا گروہ اگرچہ ہرسیاہ و سفید کا مالک ہے تا ہم یہ امت کے جسم میں سرطان کی حیثیت رکھتا ہے – ان حکمرانوں میں سے کسی نے کالا عمامہ پہنا تو کسی نے سفید چوغہ زیب تن کیا ہے- کسی نے افریقی لباس تو کسی نے لال ٹو پی سر پر سجا لی ہے ان حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے دوام کے لیے نہ صرف اپنی عوام کو جدید تعلیم سے نا آشنا رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے بلکہ دین مبین اور دین فطرت کی ایسی تشریح کے لیے مذہبی دلالوں کا ایک ایسا گروپ تیار کیا جس نے دین مبین کو چند مذہبی رسوم کی ادائیگی کا لباس پہنایا اور اسے ایک نفع بخش کاروبار کی شکل دی۔ یہ مذہبی دلال ان بے غیرت حکمرانوں کے ہر سیاہ کارنامے میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ ظلمتوں کے یہ سفیر ہی اصل میں ہماری بد قسمتی اور زبوں بختی کی بھیانک تصویر کے خالق ہیں۔
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ______
خود ہی دکھلایا ہے میرے چراغاں نے مجھے