
تحریر: کاشف میر
کشمیر کا مسئلہ ایک تاریخی، سیاسی اور عسکری تناظر رکھتا ہے، جو برصغیر کی تقسیم کے وقت سے چلا آ رہا ہے۔ 1947 میں جب برصغیر تقسیم ہوا، تو ریاست جموں و کشمیر کا الحاق متنازعہ رہا اور اس کا نتیجہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں نکلا۔ بعد ازاں، 1949 میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ایک سیاسی حل کی راہ ہموار کی گئی، مگر بھارت کی ہٹ دھرمی نے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا۔
گزشتہ سات دہائیوں میں کشمیر میں کئی بار فوجی جھڑپیں ہو چکی ہیں، لیکن ہر بار یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ عسکری اقدامات کس حد تک مسئلہ کشمیر کے حل میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 1965 کی جنگ، 1999 کا کارگل آپریشن، اور بعد ازاں لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپوں نے کشمیر کی تحریکِ آزادی پر کیا مثبت یا منفی اثرات مرتب کیے۔ ان تمام تنازعات کے باوجود، کشمیری عوام آج بھی اپنی آزادی کے لیے برسرِ پیکار ہیں اور عالمی برادری ان کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔
آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی سرحدوں پر حالیہ جھڑپوں کو محض عسکری نقطہ نظر سے دیکھنے کے بجائے، ان کے پس پردہ عوامل کا گہرائی سے تجزیہ ضروری ہے۔ اگر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ کی مداخلت کا جواب کشمیر میں عسکری سرگرمیوں کے ذریعے دیا جائے گا، تو اس سے تحریکِ آزادی کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا یہ پالیسی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو تقویت دے گی یا کمزور کرے گی؟
ہمارے فوجی اور سول جوانوں کی شہادت پوری قوم کا نقصان ہے، اور ہر شہید ہمارا فخر ہے۔ پاک فوج کا ہر سپاہی شہادت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے، لیکن پالیسی سازی کے حوالے سے سنجیدہ گفتگو کو غداری سے جوڑنا اب ناقابل قبول ہونا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ محض عسکری حکمتِ عملی سے حل نہیں ہوگا، بلکہ ہمیں سفارتی، سیاسی اور عوامی سطح پر ایک متفقہ اور طویل مدتی حکمتِ عملی اختیار کرنی ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ فیصلہ ساز ہمیں واضح طور پر سمجھائیں کہ کشمیر میں عسکری مداخلت سے تحریکِ آزادی کو کس طرح فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اس کے طویل مدتی اثرات کیا ہوں گے؟ کیا ہمیں کشمیر کاز کے لیے ایک ایسی پالیسی اپنانی چاہیے جو ردعمل کے بجائے ایک مربوط اور مسلسل حکمتِ عملی پر مبنی ہو؟ تاریخ کا گہرا مطالعہ اور حالیہ حالات کا تجزیہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف جذباتی یا عسکری اقدامات سے نہیں، بلکہ دانشمندانہ پالیسیوں، بین الاقوامی سفارت کاری اور عوامی حمایت سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔